بچوں کی لاٹریاں خریدنا بیچنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ذوالحجۃالحرام1441ھ

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ دکانوں پر بچوں کےلیے لاٹریاں ہوتی ہیں وہ خریدنا اور بیچنا جائز ہے یانہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     خرید و فروخت کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ جو چیز خریدی جارہی ہے وہ معلوم ہو اس میں جہالت نہ ہو۔ بچوں کی لاٹری جو خریدی جاتی ہے اس میں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اندر کیا ہے ، بلکہ بعض اوقات تو خالی بھی نکل آتی ہے اور خریدنے والے کے پیسے ضائع ہوجاتے ہیں  اسی طرح بعض اوقات کم قیمت چیز نکلتی ہے جس سے خریدار کو نقصان ہوتا ہے اور بعض اوقات لاٹری کی قیمت سے زیادہ کی چیز نکل آتی ہے۔ ایسی لاٹریاں دو حال سے خالی نہیں اگر ایسی ہیں  کہ اس میں کوئی بالکل خالی بھی نکلتی ہےتو یہ واضح طور پر جوا ہے۔ اور اگر ایسی ہے کہ کوئی بھی خالی نہیں نکلتی لیکن اندر مختلف قیمت کی چیزیں ہوتی ہیں اور کوئی بھی نکل سکتی ہے تو یہ مجہول چیز کی خرید و فروخت اور بیع فاسد اور گناہ کا کام ہے۔

    یہ کام گلی محلوں میں زیادہ ہوتا ہے اور بچے ہی عام طور پر اس طرح لاٹریاں خریدتے ہیں۔ اس سے دکاندار کو تو فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے لیکن جو بچے یہ خریدتے ہیں ان کا عموماً نقصان ہی ہوتا ہے اور جب کچھ نہیں نکلتا تو بچہ سوچتاہےکہ آج نہیں نکلا تو کل کچھ نکل آئے گا ، کل قسمت آزماؤں گا اس طرح وہ دوبارہ خریدتا ہے۔

    دکانداروں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ایسی چیزیں اپنی دکانوں پر نہ رکھیں کیونکہ بچے وہی چیز خریدیں گے جو دکان پر موجود ہوگی ، اگریہ لاٹری دکان پر موجود ہی نہ ہو تو بچے خریدیں گے بھی نہیں۔یہ بھی واضح رہے کہ اس طرح  کی لاٹریاں بیچ کر جو مال حاصل کریں گے ، وہ جائز نہیں ہوگا بلکہ  وہ مال حرام ہوگا۔

    اللہ  تبارک و تعالٰی نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے حاصل کرنے سے منع فرمایا ہے۔  چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : )وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ( تَرجَمۂ کنز الایمان : اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔

(پارہ 2 ، سورۃ البقرہ ، آیت 188)

    اس آیت کی تفسیر میں ہے : “ اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کر یا چھین کر چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی یا چغل خوری سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔ “

(تفسیر خزائن العرفان)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم