مال بیچنے کا  وعدہ کرکے نہ بیچنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ اگست 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے بکر سے یہ بات کہی کہ میں یہ چیز آپ کو اتنے روپے میں دے دوں گا لیکن ابھی کوئی ایڈوانس(Advance)نہیں لیا اور نہ ہی بکر نے وہ چیز ابھی لی لیکن دوسرے دن بکر جب روپے لے کر پہنچ گیا تو زید نے کہا کہ میں بیچنا نہیں چاہتا تو کیا زید کا ایسا کرنا درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     ”میں آپ کو یہ چیز اتنے کی دے دوں گا“یہ وعدۂ بیع (Promise to sell)ہے بَیْع نہیں ہے۔ اصل دارومدار جملہ کے استعمال اور عُرف کا ہے عُرفِ  عام میں ان جملوں سے سودا کرنا مراد نہ لیا جاتا ہو تو یہ صرف وعدہ کے ہی الفاظ ہیں اور صرف وعدہ کرلینے سے سودا طے نہیں ہوجاتا سودا طے کرنے کے لئے ایسے الفاظ بولنا ضَروری ہےجس سے حتمی ڈیل(Final Deal)سمجھی جاتی ہو، جیسے خریدار کہے میں نے اتنے میں خریدی اور سامنے والا کہے ٹھیک ہے، یا بیچنے والا کہے اتنے میں سودا طے ہوا خریدار کہے مجھے منظور ہے یا ٹھیک ہے۔ یونہی کچھ افعال بھی ایسے ہوتے ہیں جس سے سودا ہوجاتا ہے ایسی صورت کو بیعِ تَعَاطی کہتے ہیں جیسے کوئی آواز لگا رہا ہے ہر مال اتنے کا، خریدار نے پیسے رکھے فروخت کنندہ (Seller)نے چیز خریدار (Buyer) کے حوالے کردی سودا ہوجائے گا۔

     خلاصۂ کلام یہ  کہ سودا ہونے اور وعدہ ہونے میں فرق ہے۔ چونکہ صورتِ مسئولہ میں بھی بکر نے اس سے وعدہ ہی لیا تھا لہٰذا زید اپنی چیز کو بیع (فروخت) کرنے سے مَنْع کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ ہاں وعدہ کو پورا کرنا مکارمِ اَخلاق (اچھے اخلاق میں سے) ہے مگر اس پر جَبْر نہیں کیا جاسکتا۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:جو لفظ محض استقبال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے کہ اس کے ساتھ سِین اور سَوفَ ملا ہو تو یا امر کے صیغہ کے ساتھ (ہو تو) بیع منعقد نہیں ہوتی۔(فتاویٰ عالمگیری،3/4)

     صدرُالشّریعہرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں:”مستقبل کے صیغہ سے بیع نہیں ہوسکتی دونوں کے لفظ مستقبل کے ہوں یا ایک کا مثلاً خریدوں گا، بیچوں گا، کہ مستقبل کا لفظ آئندہ عقد صادر کرنے کے ارادہ پر دلالت کرتا ہے فِی الْحال عقد کا اِثبات نہیں کرتا۔(بہارشریعت،2/618مکتبۃ المدینہ)

     فتاویٰ عالمگیری میں ہے:”اگر وعدہ پورا کرے تو بہتر ہے ورنہ وعدوں کو پورا کرنا اس پرلازم نہیں۔“(فتاویٰ عالمگیری،4/427)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم