سامان لینے کے بعد ریٹ کا تعین کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ اگست 2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مُفْتِیانِ شرعِ مَتین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص ہر ماہ ایک دکان سے راشن لیتا ہے، اس طرح کہ ہر ماہ اس دکان دار کو اَشْیَا کی لسٹ (List) دے دیتا ہے، اور دکاندار تین چار دن بعد سامان اس کے گھر پہنچا دیتا ہے اور لسٹ میں ہر چیز کا ریٹ اور کل رقم (Total amount) لکھ کردے دیتا ہے اور وہ شخص اسے رقم ادا کردیتا ہے۔ کیا یہ خریدو فروخت جائز ہوئی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     پوچھی گئی صورت بیعِ تَعَاطِی کی ہے جس میں ایجاب و قبول لفظوں کے بجائے قیمت اور سودے کے لین دین کے وقت پایا جا رہا ہے اور ایسی حالت میں کہ خریدنے والے کو ہر چیز کے ریٹ کا بھی عِلْم ہے۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں کسی قسم کی کوئی خرابی نہیں۔ یہ صورت تو نہایت ہی نفیس اور فقہی پیچیدگیوں سے پاک ہے البتہ اسی سے ذرا مختلف صورت جو کہ عام طور پر لوگ کرتے ہیں کہ پہلے پورا مہینا مثلاً سودا لیتے رہے پھر اس کا حساب اور ریٹ کا تعین کیا، اس پر فقہائےکرام نے بہت ہی زیادہ کلام کیا ہے اور بالآخر اسے بھی جائز ہی کہا ہے چنانچہ ”دُرِّمُخْتَار“ میں ہے: انسان جو چیزیں دکانداروں سے لے آتے ہیں، اور انہیں استعمال کرنے کے بعد ان کی قیمت کا حساب کرتے ہیں، تو یہ استحسان کے طور پر جائز ہے۔(درمختار،7/28)

     صدرُالشّریعہ حضرت علّامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی ”بہارِ شریعت“میں فرماتے ہیں:دوکانداروں کے یہاں سے خرچ کے لیے چیزیں مَنْگالی جاتی ہیں اور خرچ کرڈالنے کے بعد ثمن (یعنی چیزوں کی قیمت) کا حساب ہوتا ہے، ایسا کرنا استحساناً جائز ہے۔(بہارِ شریعت،2/624)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم