مارکیٹ ریٹ سے مہنگی شے بیچنا

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ نومبر 2017

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اِس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص بغیر دھوکا دہی کے کسی شخص کو مارکیٹ ریٹ(Market rate) سے تین گنا زیادہ مہنگی چیز بیچ دیتا ہے تو کیا معلوم ہونے پر خریدار کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اُس سودے کو کینسل(Cancel)کردے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     پوچھی گئی صورت میں اگر بیچنے والے نے مارکیٹ ریٹ سے تین گنا زیادہ بیچنے میں کسی قسم کا دھوکا نہیں دیا تو باہمی رضامندی سے منعقد ہونے والے اِس سودے کو اب خریدار کینسل نہیں کرسکتا ہاں اگر دھوکے کی صورت پائی گئی تو پھر خریدار اِس سودے کو کینسل کراسکتا ہے۔ اِس صورت میں دھوکے کی مثال فُقَہَائے کرام یہ بیان فرماتے ہیں مثلاً بیچنے والا خریدار سے کہے میرے اِس سامان کی اِتنی قیمت ہے یا میرا یہ سامان اتنی قیمت کے مُسَاوی ہے بیچنے والے کی اس بات پر اِعتبار کرتے ہوئے خریدار وہ چیز خرید لے پھر اسے عِلْم ہو کہ بائع(بیچنے والے) کی بات درست نہیں ہے اور اِس چیز کی قیمت کم ہے تو بیچنے والے کے اِس دھوکے کی وجہ سے خریدار وہ چیز واپس کرسکتا ہے جب کہ کسی اور وجہ سے شرعاً واپسی کا حق ختم نہ ہوگیا ہو۔

     تبیینُ الحقائق میں ہے: جب بائع نے مشتری (خریدنے والے) سے کہا: میرے سامان کی قیمت اتنی ہے یا کہا:میرا سامان اتنے کے برابر ہے خریدار نے اِس پر بِنا کرتے ہوئے خرید لیا پھر اِس کا خلاف ظاہر ہوا تو بائع کے خریدار کو دھوکا دینے کے سَبَب خریدار کے لئے اِس بیع کو رَدْ کرنے کا اِختیار ہوگا اور اگر ایسا کچھ نہیں کہا تو اب بیع رد کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ بعض فقہاء نے فرمایا کہ بیع جس طرح بھی ہو رَد نہیں کرسکتے مگر صحیح یہ ہے کہ اگر دھوکا ہواہے تو رد کا حکم دیا جائے گا ورنہ رد کا حکم نہیں۔(تبیینُ الحقائق،4/436)

     صَدْرُالشَّریعَہ بَدْرُالطَّریقَہ مفتی محمد امجد علی اَعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی اِرشاد فرماتے ہیں: کوئی چیز غَبنِ فاحِش کے ساتھ خریدی ہے اُس کی دو صورتیں ہیں دھوکا دیکر نقصان پُہنچایا ہے یا نہیں اگر غَبنِ فاحِش کے ساتھ دھوکا بھی ہے تو واپس کرسکتا ہے ورنہ نہیں۔ غَبنِ فاحِش کا یہ مطلب ہے کہ اتنا ٹوٹا (گھاٹا) ہے جو مُقَوّمِیْن (قیمت لگانے والوں) کے اندازہ سے باہر ہو مثلاً ایک چیز دَس روپے میں خریدی کوئی اُس کی قیمت پانچ بتاتا ہے کوئی چھ کوئی سات تو یہ غَبنِ فاحش ہے اور اگر اُس کی قیمت کوئی آٹھ(8) بتاتا کوئی نو(9) کوئی دس(10) تو غبنِ یسیر ہوتاہے۔ دھوکے کی تین صورتیں ہیں کبھی بائع مشتری کو دھوکا دیتا ہے پانچ کی چیز دس میں بیچ دیتا ہے اور کبھی مشتری بائع کو کہ دس کی چیز پانچ میں خرید لیتا ہے کبھی دَلّال (سودا کرانے والا) دھوکا دیتا ہے اِن تینوں صورتوں میں جس کو غبنِ فاحش کے ساتھ نقصان پہنچا ہے واپس کرسکتا ہے اور اگر اجنبی شخص نے دھوکا دیا ہو تو واپس نہیں کرسکتا۔(بہارشریعت،2/691)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم