سودے میں لگائی گئی ایک غلط شرط

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ نومبر 2017

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اِس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل گاڑیوں کی خرید و فروخت میں یہ طریقہ بھی رائِج ہوگیا ہے کہ مثلاً ایک لاکھ روپے کا رِکشا خرید کر آگے ڈیڑھ لاکھ روپے میں قسطوں پر فروخت کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ بقیہ رقم گاڑی پر ہے گاڑی چلتی رہے گی اور قسطیں بھی ادا ہوتی رہیں گی لیکن قسط مکمل ہونے سے پہلے اگر گاڑی کسی حادثہ کا شکار ہوگئی، جل گئی یا چوری ہوگئی اس صورت میں بقیہ قسطیں ساقط ہوجائیں گی یعنی بائع(بیچنے والے) کو خریدار سے بقیہ رقم کے مطالبے کا حق نہ ہوگا کیا یہ صورت جائز ہے؟ اس بارے میں راہنمائی فرما دیں؟۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     سوال میں بیان کی گئی صورت عَقدِ فاسِد اور ناجائز ہے۔ خرید و فروخت میں اَصْل یہ ہے کہ جب کوئی بھی چیز کسی مُعاوضہ یا قیمت کے بدلے بیچی جاتی ہے تو سودا ہوتے ہی خریدار مال کا مالک ہوجاتا ہے اور بیچنے والا مُعاوضہ یا ثَمَن یعنی قیمت کا مستحق ہوجاتا ہے اور اُدھار کا سودا ہو تو مال خریدنے والے کے ذِمَّہ قیمت کی اَدَائیگی دَین(یعنی قرض) ہوتی ہے جو کہ اُس پر   واجبُ الاَدَا رہے گی۔

     پوچھی گئی صورت میں سودے میں ایسی شرط شامل ہے جو خریدار کے فائدے پر مشتمل ہے اور سودا ایسی شرط کا تقاضا نہیں کرتا کیوں کہ سودے کا تقاضا یہ ہے کہ جو قیمت طے ہوئی ہے وہ ہی ادا کی جائے لہٰذا ایسی شرط کی موجودگی میں یہ سودا عَقْدِفاسِد اور ناجائز ہے۔

     النھر الفائق میں ہے: یعنی ہر شرط بیع کو فاسد نہیں کرتی بلکہ ضروری ہے کہ وہ شرط ایسی ہو جس کا عَقْد تقاضا نہ کرے اور نہ ہی وہ عقد کے مناسب ہو، نہ ہی لوگوں کے درمیان مُتَعَارَف ہو اور اُس میں متعاقدین میں کسی ایک یا مبیع کا نفع ہو جب کہ وہ اس کے اہل ہوں۔(النھر الفائق، 3/434)

     نفع کی وضاحت کرتے ہوئے رَدُّالمحتار میں ہے:اَلْمُرَادُ بِالنَّفْعِ مَا شُرِطَ مِنْ اَحَدِ الْعَاقِدَيْنِ عَلىَ الْآخَرِ یعنی نفع سے مراد وہ شرط ہے جو فریقین میں سے کوئی ایک دوسرے پر نافذ کر دے۔(ردالمحتار، 7/284)

     بیع فاسِد کے متعلق رَدُّالمحتار میں ہے:اَنَّہُ مَعْصِیَّۃٌ یَجِبُِ رَفْعُھَا یعنی  بیع فاسِد گناہ ہے اور اِس کو ختم کرنا واجِب ہے۔(رَدُّالمحتار، 7/232)

     صَدْرُالشَّریعَہ بَدْرُالطَّریقَہ مفتی محمد امجد علی اَعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی اِرشاد فرماتے ہیں:جو شرط مُقْتَضَائے عَقْد کے خلاف ہو اور اُس میں بائِع یا مُشْتَری یا خود مبیع کا فائدہ ہو (جب کہ مبیع اہلِ اِستحقاق سے ہو) وہ بیع کو فاسد کردیتی ہے۔(بہار شریعت، 2/702)

     بَہارِ شریعَت میں ہے:جس بیع میں مبیع یا ثمن مجہول ہے وہ بیع فاسد ہے۔(بہار شریعت، 2/711)

     بیع فاسد کا حکم بیان کرتے ہوئے سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن ارشاد فرماتے ہیں: پس بائع و مشتری دونوں گُناہ گار ہوئے اور دونوں پر بحکمِ شرع واجب ہے کہ اپنی اِس بیع کو فسخ کریں۔(فتاوی رضویہ، 17/153)

     واضح رہے کہ بطورِ رحم و شفقت مال بیچنے والے کو اِس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ کسی مشکل کی بنا پر سودے کی بقیہ قسطیں یا کُل رقم چاہے تو معاف کردے لیکن یہ ایک اختیاری معاملہ ہے وہ چاہے تو معاف کرے چاہے نہ کرے لیکن اِس اختیار کو سودے کے معاہدہ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا کہ ایسا ہونے پر اَوَّل تو یہ اختیار لُزوم کی شکل اختیار کر گیا، دُوُم یہ کہ سودا ایسی شرط کا تقاضا نہیں کرتا۔ لہٰذا یہ دونوں الگ الگ صورتیں ہیں ان کے فرق کا لحاظ واجب ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم