نقد اور اُدھار کی قیمتوں میں فرق کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جنوری 2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دکاندار سے اس طرح کھاد خریدنا کیسا کہ نقد خریدیں  گے تو 500 روپے کی اور ادھار خریدیں گے تو 550روپے کی؟ نیز اس صورت میں جو اضافی پیسے دئیے گئے یہ درست ہے یا نہیں؟ اور اس طرح سے جو آمدنی حاصل ہوگی کیا وہ حلال ہوگی یا حرام؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     پوچھی گئی صورت میں دکاندار سے اس طرح کھاد خریدنا بالکل جائز ہے کہ نقد فی بوری 500 روپے کی اور ادھار 550روپے کی۔ اس طرح خرید و فروخت کرنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں جبکہ قیمت کے یہ مختلف آپشنز صرف سودا مکمل ہونے سے پہلے بارگیننگ کرتے ہوئے دئیے گئے ہوں اور سودا کسی ایک قیمت پر ہی طے ہو۔ واضح رہے اگر یہ طے ہوا کہ مقررہ وقت سے تاخیر کرنے کی صورت میں اتنی رقم مزید دینا ہوگی تو یہ درست نہیں بلکہ ایسی شرط سودے کو فاسد کردے گی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال نہ ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم