تجارت میں منافع کی کیا حد ہے؟

مجیب:    مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:    ماہنامہ فیضان مدینہ اپریل 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ منا فع کہ کو ئی حد ہے اور اگر ہے تو کیا ہے او ر میں سو کی چیز لیتا ہوں تو کتنے کی سیل کرسکتا ہوں کیا میں نو سو کی سیل کر سکتا ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صورتِ مسئولہ میں شریعتِ اسلامیہ نے تجارت میں باہمی رضا مندی سے ہونے والے نفع کو جائز قرار دیا ہے اس میں کوئی قید نہیں ہے کہ نفع کم ہو یا زیادہ، لہٰذاآپ اپنی سو روپے والی شے دوسرے کی رضا مندی کے ساتھ نو سو روپے یا اس سے بھی زیادہ کی فروخت کرسکتے ہیں البتہ اس بات کا خیا ل رکھا جائے کہ سودا کرتے وقت کسی قسم کے جھوٹ یا دھوکے سے کام نہ لیا جائے۔ یہ تو اس مسئلے کا فقہی حکم تھا لیکن کچھ اخلاقی تقاضے بھی ہیں اور معیشت کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ مناسب ریٹ لگا کر مال بیچا جائے خاص طور پر روز مرہ کی اشیائے ضرورت، تاکہ لوگوں کی قوتِ خرید متأثر نہ ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم