غیر مسلم  ممالک میں مورگیج پر مکان لینا کیسا ؟

مجیب:    مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:    ماہنامہ فیضان مدینہ اپریل 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ میں انگلینڈ میں رہتا ہوں میں نے ایک پراپرٹی خریدنے کے لئے یہاں کے بینک سے مورگیج کے طور پر قرض لیا ہے جس کے میں ماہانہ £700 ادا کرتا ہوں جس میں سے مثلاً £50 تو سود کے طور پر اور باقی قرض کی ادئیگی کے طور پر۔ معلوم یہ کرنا تھا کہ کیا اس طرح بینک سے قرض لینا ہمارےلئے جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں  یورپ و امریکہ جیسے غیر مسلم ممالک میں نقد میں پراپرٹی  خریدنا  بلا شبہ  بہت  زیادہ  مشکل کا م ہے۔ سود کو اسلام نے حرام قرار  دیا ہے اور کوئی بھی مسلمان  دوسرے مسلمان کو سود نہ تو دے  سکتا ہے نہ ہی لے سکتا ہے لیکن کافر حربی  اور مسلمان کے درمیان سود کے لین دین کا معاملہ مختلف ہے ۔ ہدایہ میں ہے: لَا رِبوٰا بَیْنَ الْمُسْلِمِ وَالْحَرْبِی ترجمہ: مسلمان اور حربی کافر کے درمیان سود نہیں ہوتا۔ (ہدایہ آخرین، صفحہ 90)

    یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے کافر حربی سے اس عقد کے  ذریعے نفع لینے کو جائز قرار دیا ہے جو سودی طریقے پر مشتمل ہو مثلاً کافر کو قرض دے کر زائد رقم لینا مسلمان کے لئے جائز ہے لیکن سود کی نیت ہرگز نہیں کرے گا بلکہ جائز نفع سمجھ کر لے گا۔ واضح رہے کہ  فقہاء کرام نے اس کا اُلٹ کرنے کی اجازت عام حالات میں نہیں دی یعنی یہ جائز نہیں کہ مسلمان کافر سے قرضہ لے اور اس پر اسے سودی طریقے پر نفع دے۔

    البتہ غیرمسلم ممالک میں ذاتی گھر خریدنے کی دقت و دشواری کے پیشِ نظر مورگیج کی صورت میں قرضہ لے کر نفع دینا بوجہِ حاجتِ شدیدہ کے جائز ہے متعدد فقہائے عصر نے اس کی اجازت دی ہے تفصیل کے لئے دیکھئے فتاویٰ بریلی صفحہ33۔ نیز چونکہ یہ اجازت صرف حاجت شدیدہ کے پیشِ نظر ہے اس بِنا پر یہ جائز نہیں کہ کوئی ذاتی گھر کے علاوہ مورگیج  پر اضافی گھر لے کرخرید و فروخت کا  کاروبار شروع کر دے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم