وارنٹی کی کیا شرعی حیثیت ہے؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ مئی2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل بعض چیزوں کو بیچتے وقت دکاندار کسٹمر کوایک دوسال کی وارنٹی دیتا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اور جن چیزوں کی وارنٹی دی گئی اگر اس کے علاوہ کوئی اور خرابی ہوجائے اور کسٹمر دکاندار کے پاس وہ چیز واپس کرنے کے لئے لے آئے تو کیااس صور ت میں بھی دکاندار کو وہ چیز واپس کرنا ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    وارنٹی دورِ جدید کی پیداوار ہےپرانے زمانے میں نہ مشین ہوتی تھی اور  نہ ہی  وارنٹی۔ دورِ جدید میں مشین آئی تو وارنٹی بھی آئی اور وارنٹی ایک طرح  کا احسان ہےجوآج کل معاہدے کاایک حصہ بن چکی ہے فقہاء کرام رَحمہُمُ اللہ نے عرصۂ دراز  سے  اس کا اعتبار کیا ہےاور اس شرط کو جائز کہا ہے جیسا کہ بہار شریعت جو کہ تقریباً 70سال پہلے لکھی جانے والی کتاب ہے اس میں وارنٹی کے متعلق لکھا ہے: (اگر) شرط ایسی ہےجس پر مسلمانوں کا عام طور پر عمل درآمد ہے جیسے آج کل گھڑیوں میں گارنٹی سال دو سال کی ہوا کرتی ہےکہ اس مدّت میں خراب ہو گی تو دُرُستی کاذمّہ دار بائع  ہے ایسی شرط بھی جائز ہے۔(بہار شریعت،2/701 ،مکتبۃ المدینہ)

    وارنٹی میں جو شرائط بیان کی جائیں گی اور جن چیزوں کی وارنٹی دی جائےگی ان کااعتبار ہوگااور انہی شرائط کے ساتھ چیز کوواپس کیاجائے گاان کے علاوہ کوئی اور خارجی سبب پایا گیا تو چیز کو واپس نہیں کیا جاسکتامثلاً کمپنی نے ایک موبائل بیچا اور یہ کہا کہ یہ موبائل واٹر پروف نہیں ہے اور نہ ہی اس کی وارنٹی ہے اگر خریدنے والا اس موبائل کو پانی میں گِرادے پھر کمپنی کے پاس لے آئے تواس کو یہی کہا جائے گا کہ مثلاً موبائل کی مشین کی وارنٹی تھی کہ یہ جلے گی نہیں یونہی اس کی اسکرین کی وارنٹی تھی کہ آف نہیں ہوگی اس بات کی وارنٹی نہیں تھی کہ یہ واٹر پروف ہے اس لئے اس موبائل کو واپس نہیں کیا جائے گا اور وارنٹی کلیم (Claim)کرنے کا حق نہیں ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم