پرندوں  کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر/نومبر 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا پرندوں کا کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا جائز ہے مثلا ایک اچھی نسل کے طوطے کے بدلے میں زیادہ تعداد میں کبوتر دینا جائز ہےیا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    ایک اچھی نسل کے طوطے یا کسی اور پرندے کو دوسرے کئی پرندوں کے بدلے میں بیچنا جائز ہے کیونکہ پرندوں کوناپ یا تول کر نہیں بلکہ تعداد کے اعتبار سے خریدا اور بیچا جاتا ہے اور عددی ہونے سے سود پائے جانے کی ایک علت ختم ہو جاتی ہے۔البتہ اگر ایک ہی جنس کے پرندوں کو کمی بیشی سے خریدا یا بیچا جائے تو ادھار کرنے کی اجازت نہیں۔

    حضرت سیدناجابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :الحيوان اثنان بواحد لا يصلح نسيئا، ولا بأس به يدا بيدترجمہ : ایک جانور کو دو کے بدلے میں ادھار بیچنا جائز نہیں اور ہاتھوں ہاتھ بیچنے میں حرج نہیں۔(ترمذی،3/19، حدیث:1242)

    شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:فإن الجنس عندنا يحرم النساء بانفرادهترجمہ : ہمارے نزدیک صرف جنس ایک ہونا بھی ادھار کو حرام کر دیتا ہے ۔(المبسوط للسرخسی،جز12، 6/143)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم