نیلامی کے ذریعے مال بیچنا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جون 2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بازار وغیرہ میں سامان رکھ کر بولی لگائی جاتی ہےکوئی شخص ایک قیمت پر خریدنے کیلئے تیار ہوجائے تو دوبارہ اس سے زیادہ کیلئےبولی لگائی جاتی ہےاس طرح یہ معاملہ چلتارہتاہے آخر میں اس کےہاتھ چیزفروخت کر دی جاتی ہے جو سب سے زیادہ قیمت پر لینے کو راضی ہوتاہے ایسا کرناکیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     بعض اوقات کسی چیز کو نیلامی کے ذریعے بیچا جاتا ہے یہ طریقہ بھی فی نفسہ جائز ہے البتہ نیلامی کے کام میں بھی بہت ساری شرعی خرابیاں لوگوں نے داخل کر دی ہیں ان سے بچنا بھی ضروری ہے۔نیلامی کے ذریعے زیادہ قیمت کی بولی دینے والے کو چیز بیچناخود رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ثابت ہے کہ آپ نے ایک صحابی کی مدد کے لئے ان  کا پیالہ وغیرہ نیلامی کے طریقے پر زیادہ بولی لگانے والے کو بیچا۔

(سنن ابی داؤد، 2/168، حدیث:1641)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم