مال بیچنے کے لیے سچی قسم کھانا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جون 2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ سچی قسم کھا کر مال بیچا جا سکتاہے؟بعض اوقات کسٹمر کہتا ہے کہ قسم کھاؤ کہ تم نے یہ چیز اتنے میں خریدی ہے توکیا ہم سچی قسم کھا سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     سچی قسم کھانا گناہ نہیں بلکہ جائزہےاور ضرورتاً سچی قسم کھانےکی اجازت بھی ہے۔قسم کامعنی ہے ”تاکید“  اور اپنے کلام کوپختہ ومؤکدکرنے کےلیے قسم کھائی جاتی ہےلیکن کاروبار میں قسم کھانا معیوب بات ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے:عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، يَقُولُ: إِيَّاكُمْ وَكَثْرَةَ الْحَلِفِ فِي الْبَيْعِ، فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُترجمہ: حضرت سیّدنا ابوقتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے انہوں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ بیع میں قسم  کی کثرت سے پرہیزکرو کہ یہ اگر چہ چیز کو بکوا دیتی ہے مگر برکت کو مٹا دیتی ہے۔

( مسلم، ص668، حدیث:4126)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم