حرام مال سے خریدی ہوئی چیز کا حکم؟

مجیب:مفتی علی اصغر مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر/ اکتوبر2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

        کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے  کے بارے میں کہ زید سود کے پیسوں سے کھانے کے لئے چیزخریدتا ہے تو وہ کھانے کی چیز حلال کہلائے گی یا حرام ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

        کسی حرام مال سے خریدی ہوئی چیز میں حرمت و خباثت کے سرایت کرنے یعنی اس خریدی ہوئی چیز کے حرام و خبیث ہونے کے لئے خریدوفروخت میں مالِ حرام پر عقد و نقد کا جمع ہونا ضروری ہے۔ مالِ حرام پر عقد و نقد جمع ہو نے کا یہ معنیٰ ہے کہ حرام روپیہ دکھاکر کہے اس روپے کے بدلے فلاں چیز دے دو اور جو روپے دکھائے تھے وہی حرام روپے قیمت میں ادا کردے،اس طرح عقد و نقد مال حرام پر جمع ہونے سے جو چیز  خریدی جائے گی وہ بھی حرام ٹھہرے گی۔لیکن اگر خریدوفروخت میں مالِ حرام پرعقد ونقد جمع نہ ہوں مثلاً (1) سامان خریدتے ہوئے حرام روپے دکھائے تھے مگر دیتے ہوئے حلال روپے دیئے کہ یہاں حرام مال پر عقد ہوا لیکن نقد نہیں پایا گیا۔ (2)سامان خریدتے وقت حلال روپے دکھائے مگر دیتے ہوئے حرام روپے دیئے۔ (3)خریدتے وقت حلال یا حرام کوئی سے بھی روپے نہیں دکھائے لیکن دیتے وقت حرام روپے دیئے۔ ان دونوں مثالوں میں حرام مال پر نقد پایا گیا لیکن عقد نہیں ہوا لہٰذا ان صورتوں میں خریدی ہوئی چیزوں میں حرمت پیدا نہیں ہوگی یعنی وہ چیزیں حلال رہیں گی لیکن یہ بات یاد رہے کہ مذکورہ حکم سودی روپے کے عوض خریدی جانے والے چیز کی حلت وحرمت کے بارے میں تھا جہاں تک سودی مال میں تصرف کا کرنے کا معاملہ ہے تو وہ بہر صورت ناجائز وحرام ہے۔(ملخص از فتاویٰ رضویہ،16/298)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم