چیز بیچنے پر اجارہ کرنا کیسا؟

مجیب: مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ جنوری/فروری 2019

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علماءِ دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ زید کو قسطوں کی دکان پر نوکری مل رہی ہے، تنخواہ کی تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ مارکیٹنگ کرکے مہینہ میں 4لاکھ کی سیل کروائے گا تو اس کو 25000روپے تنخواہ ملے گی اور اگر اس سے کم ہوئی تو ایک لاکھ سیل پر 1ہزارتنخواہ ہوگی، اور سیل کے کم زیادہ ہونے کی صورت میں اسی تناسب سے تنخواہ ملے گی۔ کیا یہ نوکری جائزہے یا نہیں؟

        نوٹ:وقت کا اجارہ نہیں ہوگا، کام پر ہوگا، وقت کی کوئی پابندی نہیں ہوگی نیز قسط لیٹ ہونے پر مالی جرمانہ کی شرط بھی ہوتی ہے۔ سائل:محمد محسن(مرکزالاولیاء،لاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سوال میں مذکورہ طریقہ کے مطابق نوکری کرنا جائز نہیں کہ اولاً تو یہاں چیز بیچنے پر اجارہ کیا گیا ہے یعنی اگر ملازم ایک لاکھ کی اشیاء فروخت کرے گا تو اسے ایک ہزار روپے ملیں گے اور اگر چار لاکھ کی فروخت کرے گا تو اسے پچیس ہزار روپے ملیں گے (اسی طرح کم زیادہ بیچنے کی صورتیں ہیں) اور چیز بیچنے پر اجارہ کرنا جائز نہیں کہ یہ ایسا کام ہے جو اجیر کی قدرت میں نہیں ہے۔ اور ثانیاً قسط میں تاخیر کی وجہ سے جو مالی جرمانہ کی شرط لگائی گئی ہے یہ بھی جائز نہیں کیونکہ مالی جرمانہ منسوخ ہوچکا ہے اور منسوخ پر عمل کرنا حرام ہے ۔

    درمختار اورتبیین الحقائق وغیرہ میں ہے(والنظم للتبیین)لو استؤجر بأجرۃ معلومۃ علی ان یشتری او یبیع شیأ معلوما لا تجوز الإجارۃ؛ لانہ استؤجر علی عمل لا یقدر علی اقامتہ بنفسہ فإن الشراء والبیع لا یتم الا بمساعدۃ غیرہ وھو البائع والمشتری فلا یقدر علی تسلیمہ‘‘ ترجمہ: اگر کسی کو ایک معین اجرت کے بدلے میں شے بیچنے یا خریدنے پر اجیر رکھا تو یہ اجارہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس کو ایسے کام پر اجیر رکھا گیا ہے جس کو کرنے پر وہ قادر نہیں، اس لئے کہ خریدنا اور بیچنا کسی دوسرے کی کوشش کے بغیر تام نہیں ہوتا اور دوسرا شخص بائع اور مشتری ہے لہٰذا اجیر اس منفعت کو سپرد کرنے پر قادر نہیں۔(تبیین الحقائق، 5/67)

    ردالمحتار میں بحرالرائق کے حوالے سے ہے فی شرح الآثار التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ‘‘ ترجمہ:شرح الآثار میں ہے کہ تعزیر بالمال ابتدائے اسلام میں تھی پھر اس کو منسوخ کردیا گیا۔(ردالمحتار،4/61)حاشیہ شلبی علی تبیین الحقائق میں ہےالعمل بالمنسوخ حرام‘‘ترجمہ:منسوخ پر عمل کرنا حرام ہے۔(حاشیہ شلبی مع تبیین الحقائق،4/189)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم