مجہول نفع پر خرید و فروخت کرنا کیسا؟

مجیب: مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ جنوری/فروری 2019

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں کپڑا سیل کرتا ہوں۔طریقہ یہ ہے کہ میرے ماموں اپنے پیسوں سے دوسرے ملک سے کپڑا منگواتے ہیں، میں وہ کپڑا ان سے اُدھار پر خریدلیتا ہوں اور طے یہ ہوتا ہے کہ اس کی وہ مالیت جس پر ماموں نے خریدا ہے اور مزید بیچنے کے بعد جو نفع ہوگا اس میں سے آدھا ماموں کو دوں گا، کیا اس طرح کرنا درست ہے؟ اگر اس میں کوئی خرابی ہے تو اس کا حل بھی بتادیں۔

سائل:محمد ارشد عطاری (مرکزالاولیاء،لاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    آپ کا اپنے ماموں سے اس طرح کپڑا خریدنا ’’ناجائز و گناہ ‘‘ہے اور یہ بیع فاسد ہے جس کو ختم کرنا دونوں پر لازم ہے کیونکہ اس میں کپڑے کی قیمت مجہول ہے کہ آپ نے یہاں دو چیزوں کو بطورِ قیمت مقرر کیا ہے (1)آپ کے ماموں کی قیمتِ خرید(2)آپ کو ہونے والے نفع میں سے آدھا حصہ۔اور آپ کو نفع کتنا ہوگا یہ مجہول ہے لہٰذا اس وجہ سے یہ بیع فاسد ہے۔بدائع الصنائع میں بیع کی صحت کی شرائط کے بیان میں ہے”ان یکون المبیع معلوما وثمنہ معلوماترجمہ: بیع کےصحیح ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ مبیع (یعنی جس چیز کو بیچا جارہا ہے)اور اس کی قیمت معلوم ہو۔(بدائع الصنائع،5/156)

    محیط برہانی میں ہے”جہالۃ المبیع أو الثمن مانعۃ جواز البیعترجمہ:مبیع یا ثمن کی جہالت بیع کے جواز سے مانع ہے۔

(محیط برہانی،6/363)

    امامِ اہلِ سنّت سیّدی امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن فرماتے ہیں:وکل شرط فاسد فھو یفسد البیع وکل بیع فاسد حرام واجب الفسخ علی کل من العاقدین فان لم یفسخا اثما جمیعا وفسخ القاضی بالجبر“ جو شرط فاسد ہو وہ بیع کو فاسد کردیتی ہے اور ہر فاسد بیع حرام ہے جس کا فسخ کرنا بائع اور مشتری میں سے ہر ایک پر واجب ہے اگر وہ فسخ نہ کریں تو دونوں گنہگار ہوں گے اور قاضی جبراً اس بیع کو فسخ کرائے۔(فتاویٰ رضویہ،17/160)

    اس کا حل یہ ہے کہ آپ ایک مدت طے کرکے مقررہ قیمت پر اپنے ماموں سے وہ کپڑا خریدیں مثلاً اگر ان کو وہ کپڑا 5ہزار میں پڑا ہے تو آپ ان سے ایک ماہ کے ادھار پر 5ہزار 5سو کا خرید لیں یا 6ہزار کا خرید لیں، قیمت جو بھی طے ہو وہ معین ہواور ساتھ ہی پیسے دینے کی تاریخ بھی طے کرلیں تو آپ کا خریدنا ’’جائز‘‘ ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم