تقریر کی اجرت لینا

مجیب: مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ فروری/مارچ 2019

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں عُلَماءِ دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ جو مقرِّر پیسے طے کر کے آئے اور پیسے نہ ملنے پر نہ آئے کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ ایسے مقرّر کا وعظ و نصیحت سننا چاہئے کہ نہیں؟ ایسے مقرّر کا وعظ سننا جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    فی زمانہ مقرّر کا تقریر و بیان کی اجرت لینا جائز ہے اور جو مقرّر طے کرکے اجرت لیتا ہے اس کا وعظ و بیان سننا جائز ہے بشرطیکہ صحیح العقیدہ سنّی ہو۔ امامِ اہلسنّت مجدّدِ دین و ملّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن فرماتے ہیں: ’’اصل حکم یہ ہے کہ وعظ پر اجرت لینی حرام ہے۔ درّمختار میں اسے یہود و نصاریٰ کی ضلالتوں میں سے گِنا مگر’’کم مّن احکام یختلف باختلاف الزّمان، کما فی العٰلمگیریۃ‘‘ (بہت سے احکام زمانہ کے اختلاف سے مختلف ہوجاتے ہیں جیسا کہ عالمگیریہ میں ہے۔) کلیہ غیرِِ مخصوصہ کہ طاعات پر اُجرت لینا ناجائز ہے ائمہ نے حالاتِ زمانہ دیکھ کر اس میں سے چند چیزیں بضرورت مستثنٰی کیں: امامت، اذان، تعلیمِ قرآنِ مجید، تعلیمِ فقہ، کہ اب مسلمانوں میں یہ اعمال بلانکیر معاوضہ کے ساتھ جاری ہیں، مجمع البحرین وغیرہ میں ان کا پانچواں وعظ گنا و بس۔ فقیہ ابواللیث سمرقندی فرماتے ہیں، میں چند چیزوں پر فتوٰی دیتا تھا، اب ان سے رجوع کیا، ازانجملہ میں فتوٰی دیتا تھا کہ عالم کو جائز نہیں کہ دیہات میں دورہ کرے اور وعظ کے عوض تحصیل کرے مگر اب اجازت دیتا  ہوں، لہٰذا یہ ایسی بات نہیں جس پر نکیر لازم ہو۔  واللہ تعالٰی اعلم۔‘‘(فتاویٰ رضویہ،19/538)

    ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’بعض عُلَماء نے وعظ کو بھی ان امورِ مستثنیٰ میں داخل کیا جن پر اس زمانہ میں اخذِ اجرت (اجرت لینا) مشائخِ متاخرین نے بحکم ِضرورت جائز رکھا‘‘۔(فتاویٰ رضویہ،19/435)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم