پرچیزر(Purchaser)کو رشوت دینا

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ذوالحجۃالحرام1440ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی دکان کا ملازم ہمارے پاس کوئی چیز خریدنے آئے اورہم ہر مرتبہ اسے بیس تیس روپے خرچے کے طور پر دے دیں تاکہ وہ آئندہ ہم سے ہی خریدے تو ایسا کرنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    یہ رشوت ہے کیونکہ آپ اس کو پیسے اسی لئے دے رہے ہیں تاکہ وہ آپ ہی سے چیز خریدے کسی اور سے نہ خریدے، یہ پیسے دینا جائز نہیں۔

    پوچھے گئے سوال سے ملتی جلتی ایک صورت کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن لکھتے ہیں:”بیع تو اس میں (اسٹیشن پرسودا بیچنے والے) اور خریداروں میں ہوگی، یہ (اسٹیشن پر سودا بیچنے کا ٹھیکہ لینے والا) ریل والوں کو روپیہ صرف اس بات کا دیتاہے کہ میں ہی بیچوں، دوسرانہ بیچنے پائے، یہ شرعاً خالص رشوت ہے۔“(فتاویٰ رضویہ،ج 19،ص558)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم