گندم کی پِسوائی کی اُجرت میں اسی سے آٹا دینا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ محرم الحرام1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    چکی والے اور گندم پِسوانے والےمیں اگر یہ بات طے ہوتی ہے کہ چکی والا دس کلو گندم پیس کر دے گا اور اس میں سے ایک کلو آٹا بطورِ اُجرت رکھ لے گا اور دونوں اس پر راضی ہوں تو کیا کوئی حرج ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    مسلمان شریعت کے بتائے گئے اصول و ضوابط کا پابند ہے۔ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:’’نھی عن عسب الفحل وعن قفیز الطحان‘‘ ترجمہ:نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نَر جانور کی جُفتی کی اجرت اور قفیزِ طحان سے منع فرمایا ہے۔

(کنز العمال، جز4،ج 2،ص35، حدیث:9640)

    علّامہ بدرُالدّین عینی حنفی علیہِ الرَّحمہ اس کی صورتیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’وتفسیر قفیز الطحان:ان یستاجر ثورا لیطحن لہ حنطۃ بقفیز من دقیقہ الخ“ ترجمہ:اور قفیزِ طحان کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے گندم پیسنے کے لئے بیل کرائے پر لیا اور طے یہ پایا کہ اسی آٹے میں سے ایک قفیز اجرت دی جائے گی۔

(عمدۃ القاری،ج 9،ص21)

    صدرُالشریعہ بدرُالطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:”اجارہ پر کام کرایا گیااور یہ قرار پایا کہ اسی میں سے اتنا تم اُجرت میں لے لینا یہ اجارہ فاسد ہے۔“

(بہار شریعت،ج3،ص149)

    واضح رہےکہ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کے علاوہ بھی بہت سی باتوں سے ہمیں منع فرمایا ہے جن کے بارے میں باقاعدہ ابواب کتبِ حدیث میں موجود ہیں کہ کون سی بیوع ممنوع ہیں اور کون سے ایسے لین دین ہیں جو ہم نہیں کرسکتے ہمیں ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہئے، بظاہر ہمیں کوئی خرابی معلوم نہیں ہو رہی ہوتی لیکن شرعاً وہ کام ممنوع ہوتا ہےجیسے کچھ شہروں میں انسان کے بالوں کی خرید و فروخت ہو رہی ہے خریدنے والا اور بیچنے والا دونوں ہی اس پر راضی ہیں لیکن شریعتِ مطہرہ فرماتی ہے کہ انسانی جسم کی تکریم اور عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے جسم کا کوئی بھی عضو فروخت نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ایسا کرنا انسانی تکریم کے خلاف اور ناجائز ہے اور ایسی خریدوفروخت سرے سے منعقد نہیں ہوتی۔لہٰذا ہمیں ہر جگہ صرف یہ نہیں دیکھنا کہ دونوں راضی ہیں بلکہ یہ بھی دیکھنا ہےکہ اگر کسی چیز سے متعلق احادیثِ کریمہ میں ممانعت آئی ہے تو اس سے باز رہنا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم