پرندہ پکڑا اور مالک معلوم نہیں تو کیا کریں؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الاول1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے آسٹریلین طوطا پکڑ کر اس کے پر کاٹ دئیے اب وہ اڑ نہیں سکتا اس نے مجھے یہ کہہ کر دیا کہ آپ نے گھر میں اور بھی طوطے رکھے ہوئے ہیں یہ بھی رکھ لیں جب اس کے پر بڑے ہوجائیں تو آزاد کردیجئے گا۔ میں نے اس نیت سے رکھ لیا کہ جب اس کے پر بڑے ہوجائیں گے تو میں اسے دے دوں گا۔میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ اس معاملے میں کیا کیا جائے یہ ایک گمشدہ چیز تھی انہوں نے پکڑ لیا معلوم نہیں ہے کس کا ہے، اب اس کا کیا کریں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    شرعی مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا پرندہ ہے جسے لوگ عموماً پالتے نہیں ہیں وہ اڑ کر گھر میں آجاتاہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ جو پکڑلے گا اس کا ہوجائے گاجیسے جنگلی کبوتر یا چڑیا آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں عام طور پر کسی کی مِلکیت نہیں ہوتے اس طرح کے دیگر پرندے جو پکڑے گا وہ اسی کی ملک ہوں گے۔ جبکہ بعض جانور و پرندے وہ ہیں جن کے بارے میں ہمیں پتہ ہےکہ ان کا کوئی نہ کوئی مالک ہے جیسے آسٹریلین طوطے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ یہ عام پرندہ نہیں ہے بلکہ لوگ اسے خرید کر پالتے ہیں اور زیادہ تر یہ پنجروں میں رہتے ہیں کبھی پنجرہ کھلا ہوگاتو یہ اُڑ گیا ہوگا۔ اس کا حکم لقطےوالا ہے کہ اس کی تشہیر کرے اگر مالک مل جائے تو اسے واپس کرے اگر مالک نہ ملے اورظنِ غالب ہوجائے کہ مالک اب اسے تلاش نہ کرتا ہوگا تواسے صدقہ کردے۔ واضح رہےکہ اگر پکڑنے والے نے اس نیت سے پکڑا کہ خود رکھ لے گا مالک تک نہیں پہنچائے گا تو یہ حرام و گناہ ہے اور یہ غاصب قرار پائے گا۔

    بہارِ شریعت میں ہے: ”باز یا شکرا وغیرہ پکڑا جس کے پاؤں میں جُھنجُھنی بندھی ہے جس سے گھریلو معلوم ہوتا ہے تو یہ لقطہ ہے اعلان کرنا ضروری ہے۔ یونہی ہرن پکڑا جس کے گلے میں پٹا یا ہار پڑا ہوا ہے یا پالتو کبوتر پکڑا تو اعلان کرے اور مالک معلوم ہوجائے تو اسے واپس کرے۔“

(بہار شریعت،ج 2،ص 482)

    لقطہ کا حکم بیان کرتے ہوئے صَدرُالشَّریعَہ علیہ الرَّحمۃ لکھتے ہیں:”ملتقط پر تشہیر لازم ہےیعنی بازاروں اور شارعِ عام اور مساجد میں اتنے زمانہ تک اعلان کرے کہ ظنِ غالب ہوجائے کہ مالک اب تلاش نہ کرتا ہوگا۔ یہ مدت پوری ہونے کے بعد اسے اختیار ہے کہ لقطہ کی حفاظت کرے یا کسی مسکین پر تصدق کردے۔“(بہار شریعت،ج 2،ص 482)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم