کریڈٹ کارڈ استعمال کرنا کیسا ہے؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الاول1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ میں بینک کا کریڈٹ کارڈ استعمال کر رہاہوں۔ اگر میں چالیس دن کے اندر اس کی ادائیگی کر دیتا ہوں تو سود بھی نہیں دینا پڑتا تو کیا یہ کارڈ میں استعمال کر سکتاہوں؟ یہ سود کے زمرے میں تو نہیں آتا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    کریڈٹ کارڈ کے ذریعے بینک یہ سہولت دیتا ہے کہ آپ ادھار میں اشیاء کی خریداری کر سکتے ہیں اور دکان دار کو بینک فوری ادائیگی کرے گا لیکن کارڈ ہولڈر بینک کو جو بھی انتہائی مدت مقرر ہے ،تیس دن یا چالیس دن اس وقت سے پہلے پہلے ادائیگی کرے گا اور مقررہ انتہائی وقت سے پہلے ادائیگی کرنے پر تو کوئی سود لازم نہیں ہوگا لیکن تاخیر سے ادائیگی کرنے پر یومیہ کے حساب سے سود لگنا شروع ہو جائے گا۔ یہ سب باتیں کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت فریقین طے کرتے ہیں جب ہی کارڈ جاری ہوتا ہے ۔

    پوچھی گئی صورت میں سودی معاہدہ تو آپ کر چکے ہیں کیونکہ کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت آپ بینک سے یہ معاہدہ کرچکے ہیں کہ اگر ادائیگی میں تاخیر ہوئی تو میں سود ادا کروں گا لہٰذا سود دینے پر رضا مندی تو ثابت ہوچکی ہے اور یہ بھی گناہ ہے۔ مزید یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات لوگ وقت پر کسی وجہ سے ادائیگی نہیں کر پاتے تو پھر بینک سود ڈالنا شروع کر دیتا ہے یہ دوسرا گناہ ہوگا۔ پہلا گناہ تو اس وقت ہوا جب آپ نے کریڈٹ کارڈ بنواتے وقت فارم پردستخط کیے کہ اگر آپ لیٹ ہوں گے تو سود دینا پڑے گا۔ دوسرا گناہ اس وقت ہوگا جب آپ سود کی ادائیگی کریں گے اور بعض اوقات ایسی نوبت آ بھی جاتی ہے۔ اگر بالفرض یہ نوبت نہ بھی آئے تب بھی کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے کہ اس میں سودی معاہدہ لازمی طور پر کرنا پڑتا ہے۔ اس کی بجائے ڈیبٹ کارڈ استعمال کرنا چاہیے کیونکہ اس میں آپ بینک سے قرضہ نہیں لے رہے ہوتے بلکہ دکان دار کو بینک کے ذریعے اپنے ہی پیسے کی فوری ادائیگی کر رہے ہوتے ہیں اورڈیبٹ کارڈ میں آپ کو کسی قسم کا سودی معاہدہ نہیں کرنا پڑتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم