سرمایہ برابر ہو تو کیا نفع برابر ہونا ضروری ہے؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جمادی الاولی1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ دو افراد نے مل کر یوں پارٹنر شپ کی ہے کہ دونوں نے برابر برابر(Equal) انویسٹمنٹ کی ہے۔ ان میں سے ایک فریق کام کرتا ہے وہ پچھترفیصد(75%) نفع(Profit) لیتا ہے اور جو کام نہیں کرتا وہ پچیس فیصد(25%)نفع لے رہاہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     جی ہاں! پوچھی گئی صورت میں باہمی رضامندی (Mutual Understanding) سے کام کرنے والے کے لئے نفع کا ریشو زیادہ رکھ سکتے ہیں۔اس میں کوئی حرج نہیں۔ بہارِ شریعت میں ہے: ”اگر دونوں نے اس طرح شرکت کی کہ مال دونوں کا ہوگا مگر کام فقط ایک ہی کرے گا اور نفع دونوں لیں گے اور نفع کی تقسیم مال کے حساب سے ہوگی یا برابر لیں گے یا کام کرنے والے کو زیادہ ملے گا تو جائزہے اور اگر کام نہ کرنے والے کو زیادہ ملے گا تو شرکت ناجائز۔“(بہارِ شریعت،ج 2،ص499)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم