کرایہ دار کا دکان میں مزید افراد کو بٹھا کر ان سے کرایہ لینا کیسا؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ جمادی الاولی1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص دکان کرائے پر لے کر اپنے نام سے ایگریمنٹ بنوالے، پھر اس ایک دکان میں کیبن وغیرہ رکھ کر مزید تین چار افراد کو اپنےساتھ اسی دکان میں کرائے پر دے دے تو ایسا کرنا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     فقہائے کرام نےکرائے پر لی ہوئی چیز، زیادہ رقم کے بدلے آگے دینے کی کچھ شرائط مقرر کی ہیں۔ سوال میں بیان کی گئی صورت میں وہ شرائط پائی جارہی ہیں لہٰذا پوچھی گئی صورت میں دکان کرائے پر لے کر کیبن وغیرہ رکھ کر آگے کرائے پر دینا جائز ہے۔

 

    بہارِ شریعت میں ہے:”مستاجر نے مکان یا دکان کو کرایہ پر دے دیا، اگر اتنے ہی کرایہ پر دیا ہے جتنے میں خود لیا تھا یا کم پر جب تو خیر اور زائد پر دیا ہے تو جو کچھ زیادہ ہے اسے صدقہ کردے ہاں اگر مکان میں اصلاح کی ہو اسے ٹھیک ٹھاک کیا ہو تو زائد کا صدقہ کرنا ضرور نہیں یا کرایہ کی جنس بدل گئی مثلاً لیا تھا روپے پر دیا ہو اشرفی پر، اب بھی زیادتی جائز ہے۔ جھاڑو دے کر مکان کو صاف کرلینا یہ اصلاح نہیں ہے کہ زیادہ والی رقم جائز ہوجائے، اصلاح سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جو عمارت کے ساتھ قائم ہو مثلاً پلاستر کرایا یا مونڈیر بنوائی۔“

(بہارِ شریعت،ج 3،ص124)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم