میت کے مال میں سے کھانا کھلانے نیز تیجے. دسویں چالیسویں کے کھانے کا حکم؟

مجیب:مولانا نیوید چشتی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6195

تاریخ اجراء:19 شوال المکرم 1440ھ 23جون 2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے  بارے میں کہ میت کے گھر سے فوتگی والے دن سے لے کر تین دن کا کھانا کھانا اور کھلانا، جائز ہے یا نہیں؟ وہ کھانا میت کے ترکے میں سے ہو ،توکیا حکم ہو گا؟ اور اگر میت والے گھر کے کسی عاقل بالغ فرد کی طرف سے ہو، تو اس کا کیا حکم ہو گا؟ اسی طرح اگر محلے کے افراد نے رقم جمع کر کے کھانا دیا، تو کیا حکم ہو گا؟ یہ کھانا غریب و امیر سب کھا سکتے ہیں یا نہیں؟ اسی طرح تین دن کے بعد جمعرات، دسویں، بیسویں، چالیسویں اور سالانہ  وغیرہ کے کھانے کا کیا حکم ہے؟

  سائل: محمد عامر رضا عطاری (راولپنڈی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اصل سوال کے جواب سے پہلے تمہیداً یہ سمجھ لیں کہ عموماًرواج یہی ہے کہ کسی شخص کے فوت ہونے کے بعد چالیسویں تک کا  کھانا اور مہمان داری وغیرہ کے مکمل اخراجات میت کے ترکہ میں سے  ادا کیے جاتے ہیں اور ورثاء میں عاقل، بالغ، مجنون اور نابالغ سب شامل ہوتے ہیں اوربعض اوقات سب ورثاء کی اتنے زیادہ خرچ پر رضامندی بھی نہیں ہوتی۔جبکہ میت کے ترکہ میں سے ورثاء کی اجازت کے بغیر صرف کفن دفن بقدر سنت، تجہیز و تکفین، قرض کی ادائیگی اور اس کے بعد بچنے والے کل ترکہ کے تہائی تک جائز وصیت کے نفاذ کی اجازت ہے، اس کے علاوہ باقی اخراجات کے لیے میت کے عاقل بالغ ورثاء کے حصوں میں سے خرچ کرنے کے لیے ان کی اجازت ہونا ضروری ہے، اگر بعض یاکل ورثاء عاقل بالغ نہ ہوں ، یعنی مجنون یا نا بالغ ہوں ،وہ اگر اجازت دے  دیں، تو بھی ان کے حصے سے خرچ کرنا، جائز نہیںاور جو عاقل بالغ ہوں، اگر ان کی اجازت ہو، تو جتنی اجازت ہے، اس مقدار میں اور اس خاص مد میں استعمال کر سکتے ہیں۔ اجازت سے زیادہ مقدار میں یا باقی کسی اور مد میں استعمال کرنا، جائز نہیں اور اگر باقی ورثاء کی اجازت کے بغیر کسی وارث نے اوپر ذکر کی گئی مدات کے علاوہ کسی کام مثلاً:ختم درود، کھانا کھلانے، مہمان داری وغیرہ پر رقم خرچ کی، تو یہ اسی کے حصے میں سے شمار کیا جائے گا، وہ دوسروں سے مطالبہ نہیں کر سکتا۔

سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”غالباً ورثہ میں کوئی یتیم یا اور بچہ نابالغ ہوتا ہے یا اور ورثہ موجود نہیں ہوتے، نہ ان سے اس کا اذن لیا جاتا ہے، جب تو یہ امر سخت حرام ِشدیدپر متضمن ہوتا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ﴿ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمْوٰلَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمْ نَارًا ؕوَسَیَصْلَوْنَ سَعِیۡرًا﴾ ترجمہ: بے شک جو لوگ یتیموں کے مال نا حق کھاتے ہیں، بلا شبہہ وہ اپنے پیٹوں میں انگارے بھرتے ہیں اور قریب ہے کہ جہنم کے گہراؤ میں جائیں گے۔

    مالِ غیر میں بے اذن غیر تصرف خود نا جائز ہے۔ قال تعالی﴿ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوٰلَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالْبٰطِلِ ﴾ ترجمہ: اپنے مال آپس میں نا حق نہ کھاؤ۔خصوصاً نا بالغ کا مال ضائع کرناجس کا اختیار نہ خود اسے ہے، نہ اس کے باپ، نہ اس کے وصی کو،لأن الولایۃ للنظر لا للضرر علی الخصوص (اس لیے کہ ولایت فائدے میں نظر کے لیے ہے، نہ کہ خصوصاضرر کے لیے) اور اگر ان میں کوئی یتیم ہوا، تو آفت سخت تر ہے، و العیاذ باللہ رب العالمین۔ ہاں اگر محتاجوں کے دینے کو کھانا پکوائیں ،تو حرج نہیں، بلکہ خوب ہے، بشرطیکہ یہ کوئی عاقل بالغ اپنے مال خاص سے کرےیا ترکہ سے کریں، تو سب وارث موجود و بالغ و راضی ہوں۔

    خانیہ و بزازیہ و تتارخانیہ و ہندیہ میں ہے:”إن اتخذ طعاما للفقراء کان حسنا إذا کانت الورثۃ بالغین و إن کان فی الورثۃ صغیر لم یتخذوا ذٰلک من الترکۃ“ ترجمہ: اگر فقراء کے لیے کھانا پکوائے ،تو اچھا ہے، جبکہ سب ورثہ بالغ ہوں اور اگر کوئی وارث نا بالغ ہو، تو یہ ترکہ سے نہ کریں۔

    نیز فتاوی قاضی خان میں ہے:”إن اتخذ ولی المیت طعاما للفقراء کان حسنا إلا أن یکون فی الورثۃ صغیر فلا یتخذ ذٰلک من الترکۃ“ترجمہ: ولی میت اگر فقراء کے لیے کھانا تیار کرائے ،تو اچھا ہے، لیکن ورثہ میں اگر کوئی نا بالغ ہو ،تو ترکہ سے یہ کام نہ کرے۔‘‘

 (فتاوی رضویہ، جلد 9 ،ص 664،665 ،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    سیدی اعلیٰ حضرت ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:”بقدر سنت غسل و کفن و دفن میں جس قدر صرف ہوتا ہے ، بقیہ ورثاء صرف اسی قدر کے حصہ رسد ذمہ دار ہو سکتے ہیں، فاتحہ و صدقات و سوم و چہلم میں جو صرف ہوا یا قبر کو پختہ کیایا اور مصارف قدر سنت سے زائد کیے ،وہ سب ذمہ پسر پڑیں گے، باقی وارثوں کو اس سے سروکار نہیں۔ طحطاوی کے حاشیہ میں ہے:”(تتمہ) التجھیز لا یدخل فیہ السبح و الصمدیۃ و الجمع و الموائد لأن ذٰلک لیس من الأمور اللازمۃ ،فالفاعل لذٰلک إن کان من الورثۃ یحسب علیہ من نصیبہ و یکون متبرعاً و کذا إن کان أجنبیا الخ“۔(تتمہ) میت کی تجہیز میں دعا و فاتحہ(سوم، چہلم وغیرہ) لوگوں کو جمع کرنا اور دعوت طعام وغیرہ داخل نہیں ہیں، کیونکہ یہ چیزیں لازمی امور سے نہیں ہیں، چنانچہ ایسا کرنے والا اگر وارثوں میں سے ہے ،تو اس کے حصے میں سے شمار ہو گا اور وہ متبرع ٹھہرے گا، یونہی اجنبی نے ایسا کیا ،تو وہ بھی متبرع قرار پائے گا الخ۔‘‘

               (فتاوی رضویہ ،جلد 26 ،ص 288 ،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    اس تمہید کے بعد اصل سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسا کھانا جو ایام ِ موت میں یعنی سوگ کے  تین دنوں میں بطور دعوت کھلایا جاتا ہے، وہ ممنوع اور بدعت سیئہ و قبیحہ ہے،چاہے وہ (جواب کی ابتدا میں ذکر کی گئی میت کے ترکے سے رقم استعمال کرنے کی جائز صورت کے تحت) میت کے ترکہ میں سے ہو، اس کے گھر کے افراد کی طرف سے ہو یا محلہ کے افراد کی طرف سے ہوکہ دعوت خوشی کے موقع پر ہوتی ہے، موت اس کا محل نہیں، اغنیاء کے لیے اس کا کھانا، ناجائز ہے،البتہ فقراء کھا سکتے ہیں۔اورسوگ کے تین دنوں کے بعد چالیسویں تک روزانہ، جمعراتوں، دسویں، بیسویں، چالیسویں و سالانہ وغیرہ میں جو کھانا کھلایا جاتا ہے ، اس  میں بھی بہتر یہی ہے کہ فقراء ہی کھائیں، اغنیاء کو یہ کھانا،مناسب نہیں، مگر منع بھی نہیں۔البتہ اگر سوگ کے دنوں میں بھی اور بعد میں جمعرات، چالیسویں، سالانہ وغیرہ کا کھانا میلاد شریف، گیارہویں شریف یا کسی بزرگ کی نیاز کی نیت سے کھلایا جائے ،تو پھر اس کا کھانا بلا کراہت اغنیاء و فقراء کے لیے جائز ہے، بلکہ یہ تبرک ہے اور ضرور  باعث برکت ہے۔

    سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:” طعام تین قسم ہے: ایک وہ کہ عوام ایام موت میں بطور دعوت کرتے ہیں ،یہ ناجائز و ممنوع ہے۔ لأن الدعوۃ إنما شرعت فی السرور لا فی الشرور کما فی فتح القدیر و غیرہ من کتب الصدور۔ اس لیے کہ دعوت  شریعت نے خوشی میں رکھی ہے، غمی میں نہیں، جیسا کہ فتح القدیر وغیرہ کتب اکابر میں ہے۔

اغنیاء کو اس کا کھانا، جائز نہیں۔

    دوسرے وہ طعام کہ اپنے اموات کو ایصال ثواب کے لیے بہ نیت تصدق کیا جاتا ہے، فقراء اس کے لیے احق ہیں، اغنیاء کو نہ چاہیے۔

    تیسرے وہ طعام کہ نذور ارواح طیبہ حضرات انبیاء و اولیاء علیہم الصلوٰۃ و الثناء کیا جاتا ہے اور فقراء و اغنیاء سب کو بطور تبرک دیا جاتا ہے، یہ سب کو بلا تکلف رواہےاور وہ ضرور باعث برکت ہے، برکت والوں کی طرف جو چیز نسبت کی جاتی ہے، اس میں برکت آ جاتی ہے، مسلمان اس کھانے کی تعظیم کرتے ہیں اور وہ اس میں مصیب ہیں، ائمہ دین نے بسند صحیح روایت فرمایا کہ ایک مجلس سماع صوفیاء کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں نذر حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بدرہ زر رکھا ہوا تھا، حالت وجد میں ایک صاحب کا پاؤں اس سے لگ گیا، فوراً رب العزت جل و علا نے ان کا حال ولایت سلب فرما لیا، نسئل اللہ العفو و العافیۃ۔‘‘

 (فتاوی رضویہ، جلد9، ص 614،رضا فاونڈیشن، لاھور)

    سیدی اعلیٰ حضرت ایک اور مقام پر سوگ کے دنوں میں دعوت کے بارے میں فرماتے ہیں:”یہ دعوت خود ناجائز و بدعت شنیعہ قبیحہ ہے، امام احمد اپنی مسند اور ابن ماجہ سنن میں بسند صحیح حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی سے راوی:”کنا نعد الإجتماع إلی أھل المیت و صنعۃ الطعام من النیاحۃ۔‘‘ہم گروہ صحابہ اہل میت کے یہاں جمع ہونے اور ان کے کھانا تیار کرانے کو مردے کی نیاحت سے شمار کرتے تھے۔

    جس کی حرمت پر متواتر حدیثیں ناطق، امام محقق علی الاطلاق فتح القدیر شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں:”یکرہ إتخاذ الضیافۃ من الطعام من أھل المیت لأنہ شرع فی السرور لا فی الشرور و ھی بدعۃ مستقبحۃ“۔اہل میت کی طرف سے کھانے کی ضیافت تیار کرنی منع ہے کہ شرع نے ضیافت خوشی میں رکھی ہے، نہ کہ غمی میں اور یہ بدعت قبیحہ ہے۔‘‘

 (فتاوی رضویہ، جلد 9،ص662، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    ایک اور مقام پر ایصال ثواب کی نیت سے دیے گئے کھانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ” اغنیا  بھی  کھا  سکتے  ہیں، سوا  اس کھانے  کے  جو موت میں بطور دعوت کیا جائے، وہ ممنوع و بدعت ہے اور عوام

مسلمین کی فاتحہ چہلم، برسی، ششماہی کا کھانا بھی اغنیاء کو مناسب نہیں۔‘‘                                                                                                                          (فتاوی رضویہ، جلد9،ص 610،رضا فاونڈیشن،لاھور)

    ایک اور مقام پرآپ فرماتے ہیں:”بغیر دعوت کے جمعراتوں، چالیسویں، چھ ماہی، برسی میں جو بھاجی کی طرح اغنیاء کو بانٹا جاتا ہے، وہ بھی اگرچہ بے معنی ہے، مگر اس کا کھانا منع نہیں، بہتر یہ ہے کہ غنی نہ کھائے اور فقیر کو کچھ مضائقہ نہیں کہ وہی اس کے مستحق ہیں۔‘‘

           (فتاوی رضویہ، جلد 9،ص673 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم