ایمبولینس میں میت ہو،توکیا نماز جنازہ ہو جائے گی؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

فتوی نمبر: Gul-2054

تاریخ اجراء:29ربیع الاول1442ھ/16نومبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ غسل و کفن دے کر میت ایمبولینس میں رکھی ہوئی ہو، امام صاحب کے سامنے جو ایمبولینس کا دروازہ  ہے ، وہ کھول دیا جائے اور میت سامنے صاف نظر آرہی ہو اور امام صاحب کے محاذی بھی  ہو، تو کیا اس طرح نماز جنازہ ہو جائے گی؟ شرعی رہنمائی فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    میت ایمبولینس میں رکھی ہوئی ہواور میت ،امام کے سامنے موجود ہواور صاف  نظر آرہی ہو، تو اس طرح نماز جنازہ ہو جائےگی، کیونکہ فقہائےکرام نے نماز جنازہ کےصحیح ہونے کی جو شرائط بیان فرمائی ہیں،ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ میت ، نماز جنازہ پڑھنے والے یا پڑھانے والے امام کے سامنے ہواورامام کی محاذات میں ہو۔بیان کردہ صورت میں چونکہ میت امام کے سامنے  موجود ہے اور ایمبولینس کا فرش یا اسٹریچر اتنا اونچا نہیں ہوتا کہ وہ امام کی محاذات سے بھی بلند ہو ، لہٰذا نماز جنازہ ہو جائے گی ، البتہ اگرمیت اتنی اونچی ہو کہ امام کی محاذات میں نہ ہو،جیسے اونٹ یا گھوڑے یا ہاتھی پررکھی ہو، تو اب نماز جنازہ نہیں ہوگی۔

    نماز جنازہ کےصحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط  یہ ہے کہ  میت امام کے سامنے ہو،جیسا کہ فتح القدیر میں ہے:”شرط صحتھا اسلام المیت و طھارتہ و وضعہ امام المصلی “ترجمہ:نمازجنازہ کے صحیح ہونے کےلیے  شرط ہے کہ میت مسلمان ہو، پاک ہو اور نماز جنازہ پڑھنے والے کے سامنے ہو۔

(فتح القدیر، جلد2، صفحہ 80، مطبوعہ کوئٹہ)

     فتاوی ہندیہ میں ہے:”من الشروط  حضور المیت و وضعہ  و کونہ امام المصلی“ترجمہ:نماز جنازہ کی شرائط میں سے ہے کہ میت حاضر ہو اور نماز جنازہ پڑھنے والے کے سامنے رکھی ہو۔

(فتاوی ھندیہ، جلد1، صفحہ 164،مطبوعہ پشاور)

    امام اہلسنت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:”اگر پلنگ اتنا اونچا ہو کہ قد آدم سے زائد ، جس میں امام کی محاذات میت کے کسی جزو سے نہ ہو، تو البتہ نماز ناجائز ہو گی کہ محاذات شرط ہے،مگر کوئی پلنگ اتنا اونچا نہیں ہوتا۔فی رد المحتار عن جامع الرموز عن تحفۃ الفقھاء ان رکنھا القیام و محاذاتہ الی جزء من اجزاء المیت“(یعنی رد المحتار میں جامع الرموز سے اور اس میں تحفۃ الفقہاء کے حوالے سے منقول ہے  کہ نماز جنازہ کا ، رکن قیام اور میت کے اجزاء میں سے کسی ایک جزء کا محاذی ہونا ہے۔)“

(فتاوی رضویہ، جلد9، صفحہ190، رضا فاونڈیشن، لاھور)

    میت کے لیے ضروری ہے کہ وہ جنازہ پڑھنے والےامام کے مقابل و محاذی ہو، جیسا کہ اس کے متعلق حبیب الفتاوی میں ہے:’’اصل یہ ہے کہ میت کو تنہا نماز جنازہ پڑھنے والے یا نماز جنازہ پڑھانے والے امام کے مقابل و محاذی ہونا ضروری ہے، اگر میت کو کسی سواری، اونٹ، گھوڑے ، ہاتھی پر یا کسی اونچی چیز پر یا ہاتھوں کو اتنا اونچا کر دیا جائے کہ تنہا نماز جنازہ پڑھنے والے یا نماز جنازہ پڑھانے والے امام کے مقابل و محاذات میں میت نہ ہو، تو نماز جنازہ جائز و صحیح نہیں ہو گی۔اختلاف مکان سے نماز جنازہ کے عدم جواز  وصحت کا یہی مطلب ہےاور اگر میت کسی ایسے جنازہ اور سریر پر ہویا چارپائی و مسہری پر ہویا اور کسی اونچے چبوترے وغیرہ پر یا ہاتھوں پر زمین سے قریب ہو کہ تنہا نماز  جنازہ پڑھنے والے یا نماز جنازہ پڑھانے والے امام کے مقابلہ و محاذات میں میت رہے ، یعنی مقابلہ و محاذات نماز پڑھانے والے امام یا تنہا نماز جنازہ پڑھنے والے شخص سے میت کا باقی رہے، تو نماز جنازہ جائز و صحیح ہو گی۔“

 (حبیب الفتاوی، صفحہ559-560، مطبوعہ شبیر برادرز)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم