میت کے کھانے کا حکم۔نیز دسویں چالیسویں وغیرہ کے کھانے کا حکم؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6659

تاریخ اجراء:13جمادی الثانی1442ھ27جنوری2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس  مسئلےکےبارےمیں  کہ ہمارے علاقے میں جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے ،تو رشتہ دار یا اہل محلہ کھانا بناتے ہیں اور جنازے کے بعد اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ کھانا  کھا کر جائیے گا۔براہ کرم اس کا حکم ارشاد فرمادیں؟دسویں چالیسویں وغیرہ کے کھانے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    ایسا کھانا جو ایام ِ موت میں یعنی سوگ کےتین دِنوں میں بطورِ دعوت کھلایا جاتا ہے، وہ ناجائز و  ممنوع اور بدعت سیئہ و قبیحہ ہے،چاہے وہ اس کے گھر کے افراد کی طرف سے ہویا محلہ و برادری کے افراد کی طرف سے ہوکہ دعوت خوشی کے موقع پر ہوتی ہے، موت اس کا محل نہیں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  نمازِ جنازہ کے بعد میت کے  گھر  والوں یا   اہلِ محلہ کی طرف سے  لوگوں کو کھانا کھانے کی  دعوت دینا ناجائز و گناہ ہے اور  اغنیاء کے لیے  وہ کھاناکھانا، ناجائز ہے،البتہ فقراء کھا سکتے ہیں۔

    ایامِ موت میں میت کی طرف سے بطورِ دعوت کھانا بنانا، ممنوع و ناجائز و بدعتِ قبیحہ ہے۔چنانچہ حضرتِ سیدناجریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’کنا نعد الاجتماع الی اھل المیت و صنعۃ الطعام من النیاحۃ‘‘ ترجمہ:ہم(گروہِ صحابہ کرام علیہم الرضوان)اہلِ میت کے ہاں جمع ہونے اور اُن کے کھانا تیار کروانے کو میت پر نوحہ کرنا شمار کرتے تھے(اور نوحہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے)۔

(سنن ابن ماجہ،صفحہ117،مطبوعہ کراچی)

    ردالمحتار میں ہے:’’یکرہ اتخاذالضیافۃ من الطعام من اھل المیت لانہ شرع فی السرور ولا فی الشرور وھی بدعۃ مستقبحۃ‘‘ترجمہ:میت کے  گھر والوں  کی طرف سے دعوت کا اہتمام کرنا مکروہ (تحریمی)ہے،

    اِس وجہ سے کہ دعوت کا اہتمام کرنا خوشی کے موقع پر مشروع ہے،غمی میں مشروع نہیں اور یہ دعوت کرنا بدعتِ قبیحہ ہے۔

(ردالمحتارمع الدر مختار ،جلد3،صفحہ175،مطبوعہ پشاور)

    امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’یہ(میت کی)دعوت خود ناجائزو بدعتِ شنیعہ قبیحہ ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ662،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

معمول یہ ہے کہ  پہلے تین دن تک کاکھانا میت کا کھانا شمار ہوتا ہے،جس کی ممانعت ہے،لہٰذا تین دن کے بعد کا کھانا میت کا کھانا شمار نہ ہوگا۔البتہ اِس کے بعد بھی اگر موت کی نیت سے دعوت کی گئی،تو وہ  دعوت بھی میت کا کھانا کہلائے گی اور ممنوع ہو گی۔چنانچہ فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:’’لا یباح اتخاذ الضیافۃ عندہ ثلاثۃ ایام‘‘ترجمہ:میت والوں کا تین دن تک دعوت کے طور پر کھانا تیار کرنا،جائز نہیں۔

(فتاوی تاتارخانیہ،جلد2،صفحہ139،مطبوعہ کراچی)

    امام اہلسنت علیہ الرحمۃ اِس بارے میں فرماتے ہیں:’’تین دن تک اِس کا معمول ہے،لہٰذا ممنوع ہے،اِس کے بعد بھی موت کی نیت سے اگر دعوت کرے گا،ممنوع ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ667،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    میت کا کھانا صرف فقراء کھا سکتے ہیں، اغنیاء کے لیے کھانا، جائز نہیں،لہٰذا پہلے،دوسرے اور تیسرے دن،جو کھانا بطورِ دعوت تیار کیا جائے،اُس کا کھانا اغنیاء کے لیے جائز نہیں۔چنانچہ فتاوی رضویہ میں ہے:’’اغنیاء کو اِ س (یعنی جو کھانا  ایامِ موت میں بطورِ دعوت دیا جائے،اُس)کا کھانا، جائز نہیں۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ614،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    اورسوگ کے تین دنوں کے بعد چالیسویں تک روزانہ، جمعراتوں، دسویں، بیسویں، چالیسویں و سالانہ وغیرہ میں جو کھانا کھلایا جاتا ہے، اس  میں بھی بہتر یہی ہے کہ فقراء ہی کھائیں، اغنیاء کو یہ کھانا،مناسب نہیں، مگر ناجائز  بھی نہیں،کیونکہ اُس سے مقصود میت کا کھانا نہیں،بلکہ ایصالِ ثواب ہوتا ہے،لہٰذا وہ کھانا فقراء کے ساتھ ساتھ اغنیاء بھی کھا سکتے ہیں اور اُنہیں کھلانا بھی ثواب ہو گا،لیکن فقیر کو کھلانے کا زیادہ ثواب ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ وہ کھانا فقراء  کو کھلاکر میت کو اس کا ثواب ایصال کیا جائے  تاکہ میت کو زیادہ ثواب پہنچے۔

    چہلم کا کھانا اغنیاء بھی کھا سکتے ہیں، لیکن بہتر ہے کہ وہ نہ کھائیں۔چنانچہ امام اہلسنت علیہ الرحمۃ اِس بارے میں فرماتے  ہیں:” بغیر  دعوت کے جمعراتوں، چالیسویں ،  چھ ماہی ، برسی  میں جو  بھاجی  کی طرح اغنیاء کو بانٹا جاتا ہے، وہ بھی اگرچہ بے معنی ہے، مگر اس کا کھانا منع نہیں، بہتر یہ ہے کہ غنی نہ کھائے اور فقیر کو کچھ مضائقہ نہیں کہ وہی اس کے مستحق ہیں۔“

     (فتاوی رضویہ، جلد 9،صفحہ673 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

    نیز ایک مقام پر فتاوی رضویہ  شریف میں ہے:’’عوام مسلمین کی فاتحہ چہلم،برسی،ششماہی کا کھانا بھی اغنیاء کو مناسب نہیں۔‘‘

            (فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ610،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    اغنیاء پر نفلی صدقہ کرنا بھی نیکی کا کام  ہے، لیکن فقیر پر صدقہ کرنے میں زیادہ ثواب ہے ۔چنانچہ ردالمحتارمیں ہے:’’صرح فی الذخیرۃ بان فی التصدق علی الغنی نوع قربۃ دون قربۃ الفقیر‘‘ترجمہ:ذخیرہ میں اِس بات کی صراحت کی گئی  ہےکہ غنی پر صدقہ کرنا بھی قربت (نیکی)ہے،لیکن فقیر پر تصدّق سے کم  درجہ ہے۔

(ردالمحتار مع الدرمختار ،جلد6،صفحہ517،مطبوعہ پشاور)

    امام اہلسنت علیہ الرحمۃ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:’’عرف ِعام پر نظر شاہد کہ چہلم وغیرہ کے کھانے پکانے سے لوگوں کا اصل مقصود میت کو ثواب پہنچانا ہوتا ہے،اِسی غرض سے یہ فعل کرتے ہیں ولہٰذا اِسے فاتحہ کا کھانا یا چہلم کا کھانا وغیرہ کہتے ہیں۔۔ اور شک نہیں کہ اِس نیت سے ،جو کھانا پکایا جائے مستحسن ہے اور عند التحقیق صرف فقراء ہی پر تصدّق میں ثواب نہیں،بلکہ اغنیاء پر بھی مورثِ ثواب ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد9،صفحہ668،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    نوٹ:اولیائےکرام و بزرگانِ دین رحمہم اللہ المبین کے ایصالِ ثواب کے لیے مثلا: گیارہویں شریف وغیرہ پرجو لنگر ونیازکا اہتمام کیا جاتا ہے،اُس کا کھانا امیر و غریب،ہر مسلمان کے لیے جائز ہےکہ وہ پاک روحوں کے ایصالِ ثواب کے لیے پکایا گیا، پاک و بابرکت کھانا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم