میت کے قریب قرآن پاک کی تلاوت کرنا؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Har-4203

تاریخ اجراء:22شوّال المکرم1442ھ/03جون2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ  میّت کو غسل دینے سے پہلے اس کے پاس  کھڑے ہوکر تلاوت کرنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    میّت کو غسل دینے سے پہلے اس کے پاس   کھڑے ہوکرتلاوت کر نا مکروہ یعنی ناپسندیدہ عمل ہے،تلاوت کے علاوہ ذِکرواَذکار کرنے میں حرج نہیں ،البتہ اگر  میّت کے پورے بدن کو کسی کپڑے سے  ڈھانپ دیاجائے ،توغسل دینے سے پہلے بھی تلاوت کر سکتے ہیں۔

    میّت کےپاس تلا وت کے مکروہ ہونےسےمتعلق تنویرالابصارودرمختار، بحرالرائق،تبیین الحقائق،نہرالفائق اوردیگر کتبِ فقہ میں ہے،واللفظ للدر:”تكره القراءة عنده حتى يغسل “ترجمہ: میّت  کے پاس قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا، مکروہ ہے،یہاں تک کہ اسے غسل دے دیاجائے۔

 (درمختار مع ردالمحتار،کتاب الصلوۃ ،جلد2،صفحہ98،مطبوعہ کوئٹہ)

     مذکورہ بالا عبارت کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رحمۃاللہ علیہ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:”قلت:والظاهر أن هذا أيضا إذا لم يكن الميت مسجى بثوب يستر جميع بدنه “ترجمہ:(علامہ شامی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں)میں کہتاہوں:ظاہر یہی ہے  کہ یہ(حکمِ کراہت)بھی تب ہے،جب میّت کسی ایسے  کپڑے سے ڈھکی ہوئی  نہ ہو، جو تمام بد ن کو چھپا دے(یعنی جب میّت کو کسی کپڑے سے چھپا دیاجائے،تو اس کے پاس تلاوت کرنا ،جائزہے)۔

 (ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الصلوۃ ،جلد2،صفحہ99،مطبوعہ کوئٹہ)

    صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ  (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:”میّت کے پاس تلاوتِ قرآن مجید جائز ہے ،جبکہ اس کا تمام بدن کپڑے سے چھپا ہو اور تسبیح و دیگر اذکار ميں مطلقاً حرج نہیں۔ “

(بھارِ شریعت ،جلد1،حصہ4،صفحہ809،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم