مُردہ پیدا ہونے والے بچّے کی تجہیز و تکفین

مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ صفرالمظفر1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ مسلمان کا جو بچّہ ماں کے پیٹ میں ہی مرگیا اور مُردہ پیدا ہوا تو اس کو غسل اور کفن دیا جائے گا؟ اور نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی؟ اور کیا اس کو قبرستان میں دفن کرنا درست ہے ؟

سائل:احمد احسن عطّاری(داروغہ والا، لاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    ماں کے پیٹ سے ہی جو بچّہ مُردہ پیدا ہوا،اس کے لئے غسل و کفن بطریقِ مسنون نہیں اور اس پر نمازِ جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی، اُسے ويسے ہی نہلا کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیں گے اور اسے قبرستان میں دفن کرنا درست ہے۔ بچّے کا غسل و کفن بطریقِ مسنون اور جنازہ کی نماز تب ہے جب اکثر حصہ باہر آگیا ہو اور اس کے زندہ ہونے کی کوئی علامت مثلاً حرکت کرنا یا آواز نکالنا وغیرہ پائی جائے۔ اکثر کی مقدار یہ ہے کہ سر کی جانب سے ہو تو سینہ تک اکثر ہے اور پاؤں کی جانب سے ہو تو کمر تک اکثر ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم