کرونا وائرس کی وجہ سے فوت شدہ شخص کے غسل و نمازِ جنازہ کے احکام

مجیب:مولانا محمدحسان صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Kan-14845

تاریخ اجراء:01شعبان المعظم1441ھ/26مارچ2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ یوکے سمیت کئی ممالک میں کرونا وائرس کے سبب انتقال کرنے والے مسلمانوں کی میت کو ہسپتال کی طرف سے پلاسٹکبیگ میں لپیٹ کر تابوت میں بند کردیا جاتا ہے اور اس کو غسل نہیں دیا جاتا ،صرف اس تابوت کے ساتھ دفنانے کی اجازت ہوتی ہے ۔ تو اب اس کے غسل اور جنازے کا کیا حکم ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     مسلمان میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے، اگر قدرت کے باوجود اس کو غسل نہ دیا گیا ، تو یہ گناہ ہے، لہذا جہاں جہاں مسلمانوں کے لیے ممکن ہے جیسے اسلامی ممالک میں جہاں پابندی نہیں اور  دیگر ممالک جہاں غسل دینے میں ممانعت نہیں ، تو وہاں غسل لازمی دیا جائے گا ۔ لیکن صورت مسئولہ میں جب اس کو نہ پانی کے ذریعے  غسل دینے کی اجازت ہے اور نہ ہی تیمم کرانے کی، تو حکم شرع یہ ہے کہ دفنانے کے بعد اس کی قبر پر فوری نماز جنازہ ادا کرلی جائے ، اگر اتنی تاخیر کردی گئی جس سے ظنِ غالب ہوگیا کہ اس کی لاش سلامت نہ رہی ہوگی ، تو اب اس کی قبر پر بھی نمازِ جنازہ نہیں پڑھ سکتے ۔

     جب کوئی مسلمان انتقال کر جائے ، تو دیگر مسلمانوں پر اس کو غسل دینا، اس کو کفن دینا، اس کا جنازہ پڑھنا اور دفنانا فرض کفایہ ہے۔اگر کسی مسلمانمیت کو پانی سے غسل دینا ممکن نہیں ، مثلا پانی میسر ہی نہیں یا میت کا جسم اس قابل نہیں تو اس کو تیمم کروایا جاتا ہے، یا پانی میسر ہے اور میت کا جسم ایسا ہے کہ اس کو مسنون غسل دیں ، تو میت کا جسم خراب ہوگا ۔ مثلا اس کا جسم جلا ہوا ہے تو اوپر سے پانی بہا دیا جائے گا۔ (فقہائے کرام نے یہی احکام بیان کیے ہیں ، کفن کے اوپر سے اس پر پانی بہانا یا اس پر مسح کردینا یا تابوت پر مسح کردینا ، ان کا میت سے تعلق نہیں ، پٹی پر مسح وغیرہ کے احکام زندہ مسلمانوں کے ہیں ۔)

     یہاں جب غسل دینا مسلمانوں کے لیے بظاہر ممکن نہیں تو بقایا فرائض کو نہیں چھوڑا جائے گا ، کفنِ ضرورت امید ہے اسے ہسپتال کی طرف سے ہی دے دیا جاتا ہوگا  اور وہ ایک کپڑا ہے جس سے جسم چھپ جائے ، تدفین کا فریضہ بھی اس کا ادا کیا جائے گا  اور نمازِ جنازہ اس کی قبر پر پڑھ کر اس  فرض کو بھی پورا کیا جائے ۔

     نماز جنازہ کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ میت کو غسل دیا جاچکا ہو ، البتہ جب غسل متعذر ہوجائےتو غسل ساقط ہوجاتا ہے ۔ فقہائے کرام نے اس کی مثال یہ دی ہے کہ  اس کو دفنادیا گیا اور اس پر مٹی ڈال دی گئی ہو ، چونکہ اب نبشِ قبر جائز نہیں تو میت اس حال کو پہنچ گئی کہ اس کو غسل دینا متعذر ہوگیااب اس کی قبر پر ہی اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی ۔

     تبیین الحقائق پھر فتاوی عالمگیری میں تبیین ہی کے حوالے سے ہے:

     ’’وشرطها:إسلامالميتوطهارتهمادامالغسلممكنا،وإنلميمكنبأندفنقبلالغسلولميمكنإخراجهإلابالنبشتجوزالصلاةعلى قبرهللضرورة،ولوصليعليهقبلا لغسلثمدفنتعاد الصلاةلفساد الأولى‘‘میت پر جنازہ درست ہونے کی شرط میت کا مسلمان ہونا ہے اور جب تک غسل ممکن ہے اس کو غسل  دینا شرط  ہے ، اگر غسل دینا ممکن نہ ہو بایں طور کہ اسے غسل سے قبل ہی دفنادیا گیا  اور اب قبر کھولے بغیر اسے نکالنا ممکن نہیں تو اس کی قبر پر ضرورت کی وجہ سے نمازِجنازہ پڑھنا جائز ہے اور اگر اس پر بلا غسل ہی نماز پڑھ لی گئی تھی پھر اسے دفنادیا گیا تو پہلی نماز کے فاسد ہونے کے سبب اس نماز کا اعادہ کیا جائے گا ۔ ‘‘

(تبیین الحقائق ، ج 1 ، ص 239 ، طبع قاهرہ ، الفتاوی الھندیۃ ، ج 1 ، ص 163 ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت )

     فتاوی والوالجیہ میں ہے :’’إذا دفن قبل أن يغسل  يصلى على قبره لأنه صار بحال تعذر غسله “ جب میت کو غسل سے قبل دفنادیا گیا تو اس کی قبر پر نماز پڑھی جائے گی اس لیے کہ وہ اس حال کو پہنچ چکی کہ اس کو غسل متعذر ہوگیا۔

(فتاوى والوالجيه ، جلد 1 ، صفحه 155 ، مطبوعه دار الكتب العلميه)

     درر الحکام شرح  غرر الاحکام  میں ہے:( وإن دفن بلا صلاة صلي على قبره ما لم يظن تفسخه) والمعتبر فيه أكبر الرأي على الصحيح لأنه يختلف باختلاف الزمان والمكان والأشخاص“اور اس پر نماز پڑھے بغیر اسے دفنادیا تو اس کی قبر پر نماز پڑھی جائے گی جب تک اس کے پھولنے پھٹنے کا گمان نہ ہو اور اس میں اعتبار صحیح قول پر اکبر رائے کا ہے کیونکہ میت کا پھول پھٹ جانا وقت جگہ اور افراد کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے ۔

     اس پر حاشیہ شرنبلالی میں ہے:

     ’’أيبأنأهيلعليهالترابسواءغسلأولالأنهصارمُسَلَمالمالكهتعالى،وخرجعنأيدينا،فلايتعرضلهبعد ذلكلزوالإمكانغسلهأ یشرعا،فتجوز الصلاةعليهبلا غسلنظرالكونهادعاءمنوجههنا للعجز بخلا فما إذالميهل،فإنهيخرجو يغسلو يصلىعليهكمافيالفتحیعنی (اس پر نماز پڑھے بغیر اسے دفنا دیا گیا تو ۔۔۔الخ)بایں طور کہ اس پر مٹی ڈال دی گئی ہو چاہے اسے غسل دیا ہو یا نہ دیا ہو اس لیے  کہ وہ اپنے مالک رب تبارک وتعالی کے سپرد کردیا گیا اور ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے ، تو شرعا غسل کے امکان کے زائل ہونے کے سبب ہم اس کے درپے نہیں ہوں گے ،لہذا عجز کے سبب اس پر بلا غسل بھی نماز جنازہ جائز ہوگی ، اس علت کے پیشِ نظر کے نماز جنازہ من وجہ دعا ہے ، بر خلاف اس صورت کے کہ جب اس پر مٹی نہ ڈالی گئی ہو کیونکہ اب اسے نکالا جائے گا ، غسل دیا جائے گا اور اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔ اسی طرح فتح القدیر میں ہے۔

(غنیۃ ذوی الاحکام ، جلد 1 ، صفحہ 165 ، مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ)

     تنویر الابصار مع درمختار میں ہے: ”(وشرطها) ستة (إسلام الميت وطهارته) ما لم يهل عليه التراب فيصلى على قبره بلا غسل، وإن صلي عليه أولا استحسانا‘‘

     علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : ”(قوله: ما لم يهل عليه التراب) أما لو دفن بلا غسل ولم يهل عليه التراب فإنه يخرج ويغسل ويصلى عليه جوهرة

     مزید فرماتے ہیں :” (قوله فيصلى على قبره بلا غسل) أي قبل أن يتفسخ كما سيأتي عند قول المصنف: وإن دفن بلا صلاة. هذا، وذكر في البحر هناك أن الصلاة عليه إذا دفن بلا غسل رواية ابن سماعة عن محمد، وأنه صحح في غاية البيان معزيا إلى القدوري وصاحب التحفة أنه لا يصلى على قبره لأنها بلا غسل غير مشروعة رملي ويأتي تمام الكلام عليه.

     (قوله وإن صلي عليه أولا) أي ثم تذكروا أنه دفن بلا غسل (قوله استحسانا)لأن تلك الصلاة لم يعتد بها لترك الطهارة مع الإمكان والآن زال الإمكان وسقطت فريضة الغسل جوهرة“مفہوم عبارت اوپر گزر چکا۔

(الدر المختار مع رد المحتار ، جلد 2 ، صفحه 207-208 ، طبع دار الفكر ، بيروت)

     بہار شریعت میں نماز جنازہ میں میت سے متعلق شرط کے بیان میں  ہے:’’ میت کا بدن وکفن پاک ہونا ، بدن پاک ہونے سے یہ مراد ہے کہ اُسے غسل دیا گیا ہو یا غسل نا ممکن ہونے کی صورت میں تیمم کرایا گیا ہواور کفن پہنانے سے پیشتر اُسکے بدن سے نجاست نکلی تو دھو ڈالی جائے اور بعد میں خارج ہوئی تو دھونے کی حاجت نہیں اور کفن پاک ہونے کا یہ مطلب ہے کہ پاک کفن پہنایا جائے اور بعد میں اگر نجاست خارج ہوئی اور کفن آلودہ ہوا تو حرج نہیں ۔ 

     بغیر غسل نماز پڑھی گئی نہ ہوئی، اُسے غسل دے کر پھر پڑھیں اور اگر قبر میں رکھ چکے، مگر مٹی ابھی نہیں ڈالی گئی تو قبر سے نکالیں اور غسل دے کر نماز پڑھیں اور مٹی دے چکے تو اب نہيں نکال سکتے، لہٰذا اب اُس کی قبر پر نماز پڑھیں کہ پہلی نماز نہ ہوئی تھی کہ بغير غسل ہوئی تھی اور اب چونکہ غسل نا ممکن ہے لہٰذا اب ہو جائے گی۔ ‘‘

(بہار شریعت ، حصہ 4 ، صفحہ 827۔828 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

     اس صورت میں بھی قبر پر نماز جنازہ درست ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کے بدن کے سلامت رہنے کا ظنِ غالب ہو، حاشیہ شرنبلالی سے ایک تصریح اوپر مذکور ہوچکی۔

     متن مختار اورغنیۃ المتملی میں ہے:’’والنظم للثانی ومن دفن ولم يصل عليه صلي علي قبره ما لم يغلب على الظن أنه تفسخ ‘‘جسے دفن کردیا گیا اور اس پر نماز جنازہ نہ پڑھی گئی تھی تو اس کی قبر پر نماز پڑھی جائے گی جب تک اس کے پھولنے پھٹنے کا ظن ِ غالب نہ ہو۔

(المختار مع الاختیار ، جلد 1 ، صفحہ 94 ، طبع دار الکتب العلمیہ ۔ غنية المتملي ، صفحه 508، طبع لاهور)

     بہارِ شریعت میں ہے :’’ میت کو بغیر نمازِ جنازہ پڑھے دفن کردیا اور مٹی بھی دے دی گئی تو اب اس کی قبر پر نماز پڑھیں گے جب تک پھٹنے کا گمان نہ ہو، اور مٹی نہ دی گئی ہو تو نکالیں اور نماز پڑھ کر دفن کریں اور قبر میں نماز پڑھنے میں دنوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں کہ کتنے دن تک پڑھی جائے کہ یہ موسم اور زمین اور میت کے جسم کے اختلافات سے مختلف  ہے۔ گرمی میں جلد پھٹے گا اور جاڑے میں بدیر، شور زمین میں جلد ، خشک اور غیر شور میں بدیر، فربہ جسم جلد، لاغیر بدیر‘‘

(بہارِ شریعت حصہ 4 صفحہ 840 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ  اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ  اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم