Beta Apne Walid Ka Janaza Parha Sakta Hai Ya Nahi ?

بیٹا اپنے والد کا جنازہ پڑھا  سکتا ہے یا نہیں ؟

مجیب:مفتی محمد حسان عطاری

فتوی نمبر: WAT-2860

تاریخ اجراء: 29ذوالحجۃ الحرام1445 ھ/06جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا بیٹا والد کا جنازہ پڑھا  سکتا ہے  ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں!  پڑھا سکتا  ہے  جبکہ شرعًا کوئی خرابی نہ  ہو۔اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگرمحلے کاامام ولی سے افضل ہوتوبہترہے کہ اس سے جنازہ پڑھوایاجائے،لیکن  ولی نے اگراس سے نہ پڑھوایا،کسی اورسے پڑھوادیاتوکوئی گناہ نہیں ۔

   اورمیت کے ولی کے حوالے سے وضاحت یہ ہے کہ اگر میت کاباپ موجودہوتواسےزیادہ حق ہے جنازہ پڑھانے کا ،اوراسے یہ بھی حق ہے کہ میت کے بیٹے سے پڑھوادے یاکسی اورسےپڑھوادے۔اور اگرمیت کابیٹاعالم ہواورباپ جاہل تواس صورت میں بیٹے کوزیادہ حق ہے جنازہ پڑھانے کا۔

   امامِ محلہ   کے ولی پر مقدم ہونے کے متعلق  در مختار  میں ہے’’ تقديم إمام الحي مندوب فقط بشرط أن يكون أفضل من الولي، وإلا فالولي أولى كما في المجتبى وشرح المجمع للمصنف ‘‘ ترجمہ :  محلہ  کے امام کا ولی پر مقدم  ہونا مستحب ہے اس شرط کے ساتھ  کہ وہ ولی سے افضل ہو  ورنہ ولی  اولی ہوگا  ، اسی طرح مجتبی میں اور مصنف کی شرحِ مجمع میں ہے۔(در مختار  مع رد المحتار  ،جلد 2 ، صفحہ 220 ، دار الفکر، بیروت  )  

    جد الممتار میں ہے ’’  ان الحق  انما ھو للولی  وانما  یستحب  تقدیم امام الحی  لاجل التعلیل المذکور  فاذا فاتت العلۃ فلیفت المعلول ‘‘ ترجمہ :   نماز ِ جنازہ میں امامت، ولی کا  حق ہے  البتہ محلے کے امام کے لئے تقدم  مذکورہ علت کے سبب مستحب ہے اور جب علت فوت ہوگئی تو معلول بھی فوت ہوجائے گا ۔(جد الممتار ، جلد 3 ،  باب صلاۃ الجنازۃ ، حاشیہ  1845 ،صفحہ 662 ، مکتبۃ المدینہ )

   بہار شریعت میں ہے’’ نماز جنازہ میں امامت کا حق بادشاہ اسلام کو ہے، پھر قاضی، پھر امام جمعہ، پھر امام محلہ، پھر ولی کو، امام محلہ کا ولی پر تقدم بطور استحباب ہے اور یہ بھی اُس وقت کے ولی سے افضل ہو ورنہ ولی بہترہے۔" (بہار شریعت، جلد 1 ، حصہ 4 ، صفحہ 836، مکتبۃ المدینہ )

    بیٹے  اور باپ میں  نماز ِجنازہ  کا  زیادہ حقدار کون ہے، اس کے متعلق  در مختار میں ہے :’’ الولي بترتيب عصوبة الإنكاح إلا الأب فيقدم على الابن اتفاقا إلا أن يكون عالما والأب جاهلا فالابن أولى‘‘ ترجمہ :  نماز  جنازہ میں امامت  کے لئے ولی  کی ترتیب،  نکاح میں عصبہ کی ترتیب کے اعتبار سے ہے البتہ   یہاں باپ کو بیٹے پر  تقدم حاصل ہے  مگر  یہ کہ بیٹا  عالم ہو اور  باپ   علم سے محروم ہو تو  اب بیٹا  اولی ہوگا ۔(در مختار  مع رد المحتار  ،جلد 2 ، صفحہ 220 ، دار الفکر،بیروت )

   بہار شریعت میں ہے ’’ ولی سے مراد میّت کے عصبہ ہیں اور نماز پڑھانے میں اولیا کی وہی ترتیب ہے جو نکاح میں ہے، صرف فرق اتنا ہے کہ نماز جنازہ میں میّت کے باپ کو بیٹے پر تقدم ہے اورنکاح میں بیٹے کو باپ پر، البتہ اگر باپ عالم نہیں اور بیٹا عالم ہے تو نماز جنازہ میں بھی بیٹا مقدم ہے۔۔۔۔۔ میّت کے ولی اقرب اورولی ابعد دونوں موجود ہیں تو ولی اقرب کو اختیار ہے کہ ابعد کے سوا کسی اور سے پڑھوا دے ابعد کو منع کرنے کا اختیار نہیں۔"(بہار شریعت، جلد 1 ، حصہ 4 ، صفحہ 836، مکتبۃ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم