Chand Din Baad Qabar Par Mitti Dalna

چند دن بعد قبر پر مٹی ڈالنا

مجیب:مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2776

تاریخ اجراء: 01ذوالحجۃالحرام1445 ھ/08جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جو شخص  دفن کے وقت موجود نہیں تھا، اس کے لیے  میت کو دفن کرنے کے دو دن یا تین دن یا دس دن بعد قبر پر  مٹی ڈالنا کیسا  ؟ حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جو لوگ  تدفین کے وقت موجود ہوں ان کے لئے قبر پر مٹی ڈالنا  مستحب ہے اور صرف اتنی ہی  مٹی ڈالنے کی اجازت ہے جس قدر کھدائی کرتے وقت نکلی ہو، اس سے زائد مٹی ڈالنا مکروہ ہے  اور عموماً اس قدر مٹی تدفین کے وقت ڈال دی جاتی ہے، لہذا کچھ دن بعد آنے والے شخص کو مٹی ڈالنے کی بجائے  فاتحہ و ایصالِ ثواب کا اہتمام کرنا چاہیئے۔

   قبر پر مٹی ڈالنے کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے: ”عن أبي هريرة، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلى على جنازة، ثم أتى قبر الميت، فحثى عليه من قبل رأسه ثلاثا“ ترجمہ:حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ  رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک میت پر جنازہ پڑھا، پھر اس کی قبر  پر تشریف لائے اور سر کی جانب سے تین مرتبہ اس پر مٹی ڈالی ۔(سنن ابن ماجہ ، جلد1 ، صفحہ499 ، مطبوعہ دار احیاء الکتب العربیہ )

   علامہ زَبِیدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:800ھ/1397ء) لکھتےہیں:”ویستحب لمن شھد  دفن المیت ان یحثوا  فی قبرہ ثلاث حثیات من التراب“ ترجمہ: جو لوگ تدفین کے وقت حاضر ہیں ان کے لیے  قبر پر تین مٹھی مٹی ڈالنا مستحب ہے۔(الجوھرۃ النیرۃ، جلد1، صفحہ133، مطبوعہ مکتبہ حقانیہ)

   زائد مٹی ڈالنے کےمتعلق صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات :1367ھ /1947ء )  لکھتے ہیں: جتنی مٹی قبر سے نکلی اُس سے زیادہ ڈالنا مکروہ ہے۔(بھار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ845، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم