Daketi Ke Doran Agar Daku Ko Qatal Kar Diya Tu Kya Is Ki Namaz e Janaza Nahi Parhe Ge?

ڈکیتی کے دوران اگر ڈاکو کوقتل کر دیا  توکیا اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھیں گے؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Gul-2524

تاریخ اجراء:16ذو القعدۃ الحرام1443ھ/16جون2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مسئلہ بیان کیا جاتا ہے کہ  ڈکیتی کے دوران اگر کوئی ڈاکو قتل کر دیا جائے، تو اس کی نماز ِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔پوچھنا یہ ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟شرعی رہنمائی فرما دیں۔

سائل:محمد قمر(سرگودھا)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شریعت مطہرہ نے مسلمانوں کی جان ، مال   اور عزت کی حفاظت کا درس دیا ہے اور مسلمانوں کے حقوق  اور احترام کو بیان فرمایا ہے اور جو مسلمانوں کے حقوق کو پامال کرے  اور ان پر ظلم کرے، تو اس کے متعلق وعیدوں اور  سزاؤں کو بھی بیان کیا ہے۔اسی طرح دینِ اسلام میں معاشرتی اور ملکی نظام کے  حقوق کے متعلق  بھی رہنمائی کی گئی اور معاشرے کو پرامن بنانے کے لئے  کئی احکامات ارشاد فرمائے ہیں۔معاشرتی بگاڑ اور مسلمانوں کی جان اور مال کو نقصان پہنچانے والی چیزوں میں سے  ایک چیز ڈاکہ زنی ہے کہ ڈاکو  لوٹ مار کر کے مال اور جان کو  نقصان پہنچاتے ہیں  جو کہ اسلامی ریاست میں رہنے والے افراد  کے لئے تکلیف کا باعث بنتا ہے اور معاشرے  اور ملکی نظام  میں فساد پھیلانے کا سبب  ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں زمین میں فساد پھیلانے والوں کی مذمت بیان فرمائی ہے، لہٰذا ایسے لوگ ہمدردی کے لائق نہیں ہوتے اور شریعت مطہرہ نے ایسے افراد کو نشان ِ عبرت  بنانے کے لئے اوراس فعل کے سدِ باب کے لئے مختلف سزائیں تجویز کی ہیں ۔

   اس مختصر گفتگو کے بعد یہ بات بھی بغور ذہن  نشین رکھی جائے کہ  فوت شدہ ڈاکو دو  طرح کے ہوتے ہیں (1)وہ ڈاکو جو دورانِ ڈکیتی لڑائی میں مارے جائیں(2) وہ ڈاکو جو ڈاکہ زنی کرتے ہوئے پکڑے جائیں اور بعد میں سزا کی وجہ سے مر جائیں یا  دورانِ ڈکیتی ان کا انتقال نہ ہوا ہو، بلکہ  اپنی طبعی موت مر جائیں۔ ان دونوں صورتوں کے  ڈاکوؤں کا  حکم مختلف  ہے۔

   پہلی صورت کے ڈاکوؤں کے متعلق  ہی فقہائے کرام نے کتب فقہ میں یہ مسئلہ ارشاد فرمایا ہے جو سوال میں مذکور ہے کہ:” ڈاکو جو ڈاکہ زنی کے دوران قتل کر دیا جائے، تو ایسے شخص کی نمازِ جنازہ اس لئے  ادا نہیں کی جائے گی“کیونکہ نمازِ جنازہ  میں دعا اور رحمت کو طلب کرنا ہے اور شریعت مطہرہ نے  بیان فرمایا ہے کہ ڈاکو کے لئے دنیا میں رسوائی اور ذلت  ہے، لہذا یہ رحمت کا مستحق نہیں  ہوگا، نیز  اس وجہ سے بھی ڈاکو کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی تاکہ لوگوں کوتنبیہ ہواوروہ  عبرت  حاصل کریں اورڈاکہ زنی  کے فعل پر اقدام نہ کریں۔

   البتہ  وہ ڈاکو جو دورانِ ڈکیتی ، انتقال نہ کرے،بلکہ گھر میں انتقال کر گیا یا وہ ڈاکو جس کو پکڑا گیا اور سزا کے طور پر انتقال کر گیا یا  جیل میں  ہی اپنی طبعی موت مر  گیا، الغرض ہر وہ ڈاکو جو دورانِ ڈکیتی نہ فو ت ہوا ہو،  تو ایسے ہر  ڈاکو کے متعلق حکمِ شرعی یہ ہے کہ اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور اسے غسل بھی دیا جائے گا۔

   پہلی صورت کے  جزئیات

   مسلمانوں پر ظلم کے متعلق اللہ پاک  قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:” وَالَّذِیۡنَ یُؤْذُوۡنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیۡرِ مَا اکْتَسَبُوۡا فَقَدِ احْتَمَلُوۡا بُہۡتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیۡنًا “ترجمہ کنز الایمان:”  جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا۔( پارہ22، سورۃ الاحزاب، آیت 58)

   اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر مدارک میں ہے:”عن الفضیل رضی اللہ عنہ لا یحل لک ان توذی کلبا او خنزیرا بغیر حق فکیف ایذاء المومنین و المومنات“ترجمہ:فضیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں:کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں،تو مومنین و مومنات کو ایذ دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔(مدارک التنزیل، جلد3، صفحہ 44،45 ، بیروت)

   مسلم شریف میں ہے:”کل المسلم علی المسلم حرام دمہ و مالہ و عرضہ“ترجمہ:ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون ،مال اور اس کی عزت حرام ہے۔(صحیح مسلم ، حدیث 2564، صفحہ 1035،ریاض، مکۃ المکرمہ)

   حدیث پاک میں تو کامل مسلمان  کی نشانی ہی یہ بتائی گئی ہے کہ جس کے ہاتھ اور  زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے، وہ کامل مسلمان ہے،  جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے:”عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ“ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی  ہے فرماتے ہیں:مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(صحیح البخاری،حدیث 10، صفحہ 8، ریاض مکۃ المکرمہ)

   محیط برھانی میں ہے:”صلي على كل مسلم مات بعد الولادة لما تلونا من الكتاب، لا البغاة وقطاع الطريق، فإنه لا يصلى عليهم.ولنا: أن الصلاة دعاء واستنزال الرحمة، ونص القرآن يشهد لقطاع الطريق بالخزي قال الله تعالى: اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْۤا اَوْ یُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِؕ-ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (المائدة: 33) وحلول الخزي به ينافي الدعاء له “ترجمہ: پیدا ہونے کے بعد (چند افراد کے علاوہ) ہر مسلمان میت پر نماز ِ جنازہ پڑھی جائے گی، اس وجہ سے جو ہم نے کتاب سے  بیان کیا، باغی اور ڈاکو کا نمازِ جنازہ نہیں پڑھا جائے گا۔ ہمارے نزدیک ا س کی وجہ یہ ہے کہ نماز ِ جنازہ دعااور رحمت نازل ہونے کا سبب ہے اور قرآن پاک میں نص موجود ہے جو بیان کرتی ہے کہ ڈاکو کے لئے رسوائی اور ذلت ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے:”وہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے اور مُلک میں فساد کرتے پھرتے ہیں ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کیے جائیں یا سولی دئیے جائیں یا اُن کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹے جائیں یا زمین سے دور کردئیے جائیں یہ دنیا میں اُن کی رُسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے بڑا عذاب ہے۔“اور ڈاکو کے ساتھ ، رسوائی کا شامل  ہونا،دعا کے منافی ہونے  کی دلیل ہے۔(المحیط البرھانی، جلد2، صفحہ 184، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   ڈاکو زمین میں فساد کرتے ہیں ، جیسا کہ المختار  لتعلیل المختار میں ہے:”(البغاۃ و قطاع الطریق لا یصلی علیھم)لانھم یسعون فی الارض فسادا قال تعالی فی حقھم ذلِكَ لَهُمْ خِزْىٌ فِى الدُّنْيَاو الصلاۃ شفاعۃ فلا یستحقونھا“ترجمہ:باغی اور ڈاکو پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، کیونکہ یہ زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ پاک نے ان کے حق میں فرمایا ہے:” یہ دنیا میں اُن کی رُسوائی ہے “اور نمازِ جنازہ شفاعت ہے اوریہ لوگ اس شفاعت کے مستحق نہیں ہیں۔(المختار  لتعلیل المختار ، جلد1، صفحہ98، مطبوعہ مطبعة الحلبي  القاهر)

   تنویر الابصار مع درِ مختار میں ہے:”(ھی فرض علی کل مسلم مات خلابغاۃ و قطاع طریق) فلا یغسلواو لا یصلی علیھم“ترجمہ:نمازِ جنازہ ہر فوت شدہ  مسلمان پر پڑھنا فرض ہے، سوائے  چند افراد کے۔باغی اور ڈاکو کانمازِ جنازہ نہیں پڑھا جائے گا اور نہ ہی ان کو غسل دیاجائے گا۔

   فلا یغسلوا “ کے تحت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” انما لم یغسلوا  و لم یصل علیھم اھانۃ لھم و زجرا لغیرھم عن فعلھم “ترجمہ:ان کی اہانت اور دیگر لوگوں کو ان کے فعل سے ڈرانے کے وجہ  سے ان کو نہ غسل دیا جائے گا اور نہ ہی ان کی  نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔(تنویر الابصار متن درِ مختار مع رد المحتار، جلد3، صفحہ 125، 126، مطبوعہ کوئٹہ)

   البحر الرائق میں ہے:”فالموتی ضربان من یغسل و من لا یغسل ۔۔۔۔والثانی ضربان من لا یغسل اھانۃ و عقوبۃ کقتلی اھل البغی و الحرب و قطاع الطریق“ترجمہ:میت دو طرح کی ہوتی ہیں، ایک وہ جس کو غسل دیا جاتا ہے اور دوسری وہ جس کو غسل نہیں دیا جاتا۔  جس میت کو غسل نہیں دیا جائے گا، اس کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک وہ  میت ہے جس کو ذلت و سزا کے طور پر غسل نہیں دیا جائے گا، جیسا کہ  اہل بغاوت اورجنگ کرنے والے اور ڈاکہ زنی کرنے والے۔(البحر الرائق، جلد2، صفحہ 188، مطبوعہ دار الکتب الاسلامیہ)

   دوسری صورت کے جزئیات

   ڈکیتی کے بعد ، ڈاکو مر جائے یا اپنی طبعی موت مر جائے،  تو اس کے جنازے کے متعلق علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”قال الزیلعی:اما اذا قتلوابعد ثبوت  ید الامام علیھم فانھم یغسلون و یصلی علیھم۔۔۔و فی الاحکام عن ابی اللیث و لو قتلوا فی غیر الحرب او ماتوا یصلی علیھم  “امام زیلعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب امام کے قبضے کے ثابت ہونے کے بعد قتل کر دئیے گئے،  تو اب ان کو غسل بھی دیا جائے گا اور ان پر نمازِ جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔احکام میں ابو اللیث سے مروی ہے کہ :اگر ڈاکولڑائی کے علاوہ  قتل ہوئے یا ویسے ہی  فوت ہو گئے، تو ان پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد3، صفحہ126، مطبوعہ کوئٹہ)

   اللباب مع القدوری میں ہے:”(من قتل من البغاۃ او قطاع الطریق)حالۃ المحاربۃ ( لم یصلی علیہ)۔۔۔قیدنا بحالۃ المحاربۃ لانہ اذا قتل بعد ثبوت  ید الامام فانہ یغسل و یصلی علیہ وھذا تفصیل حسن اخذبہ الکبار من المشایخ“ ترجمہ:باغی اور  ڈاکو کو، لڑائی کی حالت میں، قتل کر دیا جائے، تو ان پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، ہم نے ، لڑائی کی حالت کی قید لگائی، کیونکہ جب سلطان کا قبضہ ثابت ہونے  کے بعد، ان کو قتل کیا گیا ، تو اب ان کو غسل بھی دیا جائے گا اور  ان پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی اور یہ تفصیل زیادہ اچھی ہے اور اسی کو بڑے مشائخ نے اختیار کیا ہے۔(ملتقطا از اللباب مع القدوری، جلد1، صفحہ 135، المکتبۃ العلمیہ، بیروت)

   محیط برھانی  میں ہے :”کذلک قاطع الطریق فاما اذا اخذھم الامام ثم قتلھم صلی علیھم“ترجمہ:اسی طرح ڈاکو کہ جب اس کو امام نے پکڑ لیا اور پھر اس کو قتل کر دیا، تو ایسے ڈاکو پر نماز ِ جنازہ پڑھی جائے گی۔(ملتقطا از المحیط البرھانی، جلد2، صفحہ 185، مطبوعہدار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

   بنایہ میں ہے:” قطاع الطريق وفی ” الذخيرة “ ذكر الصدر الشهيد فی ” الواقعات “ان قتلوا فی الحرب لا يصلى عليهم، وان قتلوا بعدما وضعت الحرب اوزارها صلی عليهم، “ترجمہ:ڈاکو کے متعلق ذخیرہ میں ، صدر ِ شہید نے واقعات میں ذکر کیا کہ اگر ان کو جنگ میں قتل کر دیا ، تو ان کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور اگر جنگ کے ہتھیار رکھنے کے بعد انہیں قتل کیا گیا ، تو ان پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔(ملتقطا از بنایہ شرح ھدایہ ، جلد3، صفحہ 279، مطبوعہ  دار الكتب العلمية  بيروت)

   دورانِ ڈاکہ ڈاکو  مر گیا یا عام حالات میں ڈاکو مر گیا،دونوں صورتوں کے متعلق صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” ہر مسلمان کی نماز پڑھی جائے اگرچہ وہ کیسا ہی گنہگار و مرتکب کبائر ہو مگر چند قسم کے لوگ ہیں کہ اُن کی نماز نہیں۔۔۔ ڈاکو کہ ڈاکہ میں مارا گیا نہ اُن کو غسل دیا جائے نہ اُن کی نماز پڑھی جائے، مگر جبکہ بادشاہِ اسلام نے اُن پر قابو پایا اورقتل کیا تو نماز و غسل ہے یا وہ نہ پکڑے گئے نہ مارے گئے بلکہ ویسے ہی مرے تو بھی غسل و نماز ہے۔ (بہار شریعت، جلد1، حصہ 4، صفحہ 827، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم