Hazrat Fatima Ko Kis Ne Ghusl Diya ?

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو کس نے غسل دیا ؟

مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری

فتوی نمبر: WAT-2087

تاریخ اجراء: 26ربیع الاول1445 ھ/13اکتوبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   حضرت فاطمہ کو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیا تھا ۔کیا مرد اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیوی کی وفات سے نکاح ختم ہوجاتا ہے لہٰذا شوہر اپنی بیوی کی وفات کے بعد اسے غسل نہیں دے سکتا، نہ ہی بلاحائل اس کے جسم کو ہاتھ لگا سکتا ہے، کیونکہ جب نکاح ہی ختم ہوگیا تو چھونے و غسل دینے کا جواز بھی جاتا رہا ،لہٰذا وہ اسے نہ چھو سکتا ہے، نہ غسل دے سکتا ہے۔

   تنبیہ : بیوی کی وفات کے بعد شوہر کو صرف غسل دینے و بلاحائل چھونے کی ممانعت ہے، باقی چہرہ دیکھنا ، کندھا دینا ، قبر میں اتارنا وغیرہ تمام امور جائز ہیں یہ جو عوام میں مشہور ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے جنازے کو نہ کندھا دے سکتا ہے ، نہ قبر میں اتار سکتا ہے ، نہ اس کا چہرہ دیکھ سکتاہے، یہ سب باتیں محض غلط لغو و فضول ہیں، ان کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

   اور وہ جو منقول ہُواکہ حضرت سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے حضرت بتول زہرارضی اﷲ  عنہا کوغسل دیا۔ اس کی درج ذیل توجیہات ہیں:

   (1)اس کی  سند کی  صحت و لائق حجت ہونے پر علماء کو کلام ہے ۔

   چنانچہ تنقیح التحقیق للذھبی میں ہے "الدارقطني، نا ابن قانع، نا عبد الله بن أحمد بن حنبل، ثنا عبد الله ابن صندل، نا عبد الله بن نافع، عن محمد بن موسى، عن عون بن محمد، عن أمه، عن أسماء بنت عميس " أن فاطمة - عليها السلام - أوصت أن يغسلها زوجها علي وأسماء، فغسلاها ".وهذا منكر، وابن نافع واه."(تنقیح التحقیق للذھبی ،باب الجنائز،ج01،ص305،دارالوطن،الریاض)

   (2)دوسری روایت یوں ہے کہ حضرت سیدہ کائنات  کو حضرت اُمِ ّایمن رضی اﷲ عنہا (جونبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کی دائی تھیں، انہوں) نے غسل دیا۔

   (3)یہ روایت  بمعنی امر شائع ہے، جیسے کہا جاتا ہے کہ امیر (حاکم)نے فلاں کو قتل کیا، بادشاہ نے فلاں قوم سے جنگ کی  اور مراد یہ ہوتی ہے کہ  امیر یا بادشاہ نے ان کاموں کا حکم دیا، تو اسی طرح  حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے  حضرت سیدہ کائنات کو غسل دینے کا حکم ارشاد فرمایا ۔

   (4)ایک معنیٰ یہ ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ نے غسل کے اسباب مہیا فرمائے ۔ان وجوہ پر محمول کرنے سے تعارض مرتفع ہو جاتا ہے اور معنیٰ یہ ہو گا کہ حضرت  ام ایمن نے اپنے ہاتھوں سے نہلایا اورسیّدنا علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے حکم دیایا اسبابِ غسل کو مہیّافرمایا۔

   (5)یہ حضرت سیدناعلی کرم اﷲ وجہہ الکریم کے لئے خصوصیت تھی، اوروں کا قیاس اُن پر روا نہیں۔ہمارے علماء جو غسلِ زوجہ سے منع فرماتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ موت کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ، تو شوہر اجنبی ہوگیا،لہٰذا اب وہ غسل نہیں دے سکتا اور بلاحائل نہیں چھو سکتا،مگر نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کا رشتہ ابدالآباد تک باقی ہے ،کبھی منقطع نہ ہوگا، لہٰذا ان کی وفات سے نکاح  والا رشتہ ختم نہ ہوا۔(ملخص از فتاوی رضویہ ج9، ص92، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم