Kya Aab e Zamzam Se Mayyat Ko Ghusl Dena Jaiz Hai ?

کیا آب زم زم سے میت کوغسل دینا جائز ہے ؟

مجیب: محمد بلال عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1301

تاریخ اجراء:       07جمادی الاولیٰ1444 ھ/02دسمبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا زم زم سے میت کو غسل دے سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسلمان میت پرحدث حکمی طاری ہوتاہے یاحقیقی،اس حوالے سے علماکااختلاف ہے ،عامہ مشائخ کایہی موقف ہے حدث حقیقی طاری ہوتاہے یعنی میت کاجسم نجس ہوتاہے جبکہ تحقیقی وراجح واصح قول یہ ہے کہ  بمطابق حدیث مسلمان زندگی میں بھی ناپاک نہیں ہوتااورمرنے کے بعدبھی ناپاک نہیں ہوتا ،لہذااس پرطاری ہونے والاحدث حکمی ہے جیسے زندگی میں حالت جنابت میں ہوتاہے اوربے وضوشخص کے ساتھ ہوتاہے اورہمارے(احناف کے) نزدیک حدث حکمی خواہ غسل کی صورت میں ہویاوضوکی صورت میں ،اس کوزمزم کے پانی سے دورکرنابلاکراہت جائزہے جبکہ نجاست کوزمزم  کے پانی سے دورکرناجائزنہیں ہے ۔پس  راجح اورتحقیقی قول کے مطابق توآب زمزم سے میت کوغسل دینا بلا کراہت جائزہے لیکن جب عامہ مشائخ میت کونجس مانتے ہیں تواحتیاط اسی میں ہے کہ زمزم  کے پانی سےمیت کواولا غسل نہ دیاجائے بلکہ اولادوسرے پانی سے میت کومکمل غسل دے دیاجائے پھر غسل دینے کے بعد بطور تبرک اس پرآب زم زم  کاپانی ڈال دیاجائے ۔

   میت کے حدث کی تفصیل:

   ابوعبداللہ حاکم محمدبن عبداللہ بن محمدنیشاپوری علیہ الرحمۃ (متوفی405ھ)مستدرک علی الصحیحین میں فرماتے ہیں:” عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تنجسوا موتاكم، فإن المسلم لا ينجس حيا أو ميتا» صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه“ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اپنے مردوں کو ناپاک نہ ٹھہراؤ،کہ مسلمان زندہ ہو یا مردہ ،ناپاک نہیں ہوتا۔یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے ،لیکن  انہوں نے اسے روایت نہیں کیا۔(المستدرک علی الصحیحین،کتاب الجنائز،ج 1،ص 542،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   حلبۃ المجلی میں  شمس الدین محمدبن محمدالمعروف ابن امیرحاج (متوفی879ھ)فرماتے ہیں:"واختلف في سبب وجوبه، فمحمد بن شجاع ومَنْ وافقه: الحدث لأن الموت سبب لاسترخاء المفاصل، وزوال العقل، وعامة المشايخ نجاسة الموت؛ لأن الآدمي حيوان دموي فيتنجس بالموت كسائر الحيوانات ونص في البدائع على أنه الأظهر۔قلت: قد اخرج الحاکم عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لاتنجسوا موتاکم فان المؤمن فلاینجس حیا ولامیتا قال صحیح علی شرط البخاری ومسلم وقال الحافظ ضیاء الدین فی احکامہ:"اسنادہ عندی علی شرط الصحیح "فیترجح الاول “ترجمہ:غسل میت کے واجب ہونے کے سبب کے متعلق اختلاف ہے ،پس محمد بن شجاع اور ان کے موافقین کہتے ہیں:سببِ وجوب حدث ہے ،کیونکہ موت ،اعضاء کے ڈھیلے پڑنے اور زوالِ عقل کا سبب ہے ۔اور عامہ مشایخ فرماتے ہیں:سببِ وجوب موت کی نجاست ہے ،کیونکہ آدمی ایسا حیوان ہے جس میں خون ہوتا ہے تو یہ موت کی وجہ سے نجس ہو جاتا ہے جیسے سارے حیوان ہوتے ہیں ،اور بدائع میں یہ صراحت فرمائی ہے  کہ یہی زیادہ ظاہر ہے۔

   میں کہتاہوں:حاکم نے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی ہے  کہ انہوں نے فرمایا :رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے: '' اپنے مردوں کونجس نہ قرار دو اس لئے کہ مومن حیات وموت کسی حالت میں نجس نہیں ہوتا''۔ اور کہا کہ یہ بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ اور حافظ ضیاء الدین نے اپنے احکام میں فرمایا: اس کی سند میرے نزدیک صحیح کی شرط پر ہے۔ تو اول کو ترجیح حاصل ہوگی۔(حلبۃ المجلی،فصل فی صلاۃ الجنازۃ ۔۔الخ،ج 2،ص 598،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ الرحمۃ (متوفی 1340ھ)فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: " فثبت  وللّٰہ الحمد ان الحدیث ینفی تنجس المسلم بالموت فوجب کما قال المحققان ترجیح ان غسلہ للحدث وقد قال فی البحر انہ الاصح “ترجمہ:تو بحمداللہ یہ ثابت ہوگیا کہ حدیث پاک سے موت کی وجہ سے مسلمان کے نجس ہونے کی نفی ہوتی ہے تو دونوں محققوں کے فرمان کے بموجب اس کی ترجیح ضروری ہے کہ غسلِ میت حدث کی وجہ سے ہے۔ اور بحر میں فرمایا ہے کہ ''یہی اصح ہے ۔"(فتاوی رضویہ،ج 3،ص 407،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   مزیدفتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں : " میت کے بارے میں علماء مختلف ہیں جمہور کے نزدیک موت نجاست حقیقہ ہے اس تقدیر پر تو وہ پانی کہ غسل میت میں صرف ہوا مائے مستعمل نہیں بلکہ ناپاک ہے اور بعض کے نزدیک نجاست حکمیہ ہے بحرالرائق وغیرہ میں اسی کو اصح کہا اس تقدیر پر وہ پانی بھی مائے مستعمل ہے اور ہماری تعریف کی شق اول میں داخل کہ اُس نے بھی اسقاط واجب کیا۔اقول :ولہٰذا ہم نے انسان کا پارہ جسم کہا نہ مکلف کا کہ میت مکلّف نہیں۔ اور تطہیر لازم تھی کہا نہ یہ کہ اس کے ذمے پر لازم تھی کہ یہ تطہیر میت کے ذمّے پر نہیں احیا پر لازم ہے۔"(فتاوی رضویہ، ج02، ص 45، رضافاونڈیشن،لاہور)

   فتاوی امجدیہ میں حضرت علامہ مولانامفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃ(متوفی 1367ھ) سے  سوال ہوا کہ :"میت پاک ہے یا نجس؟"

    جواب  میں ارشادفرمایا:" مسلمان پاک ہے، زندہ ہو یا مردہ۔"(فتاوی امجدیہ،ج 1،حصہ 1،ص 331،مکتبہ رضویہ، کراچی)

زمزم سے حدث دورکرنا:

   محمدبن علی بن محمد حصنی المعروف علاء الدین حصکفی حنفی علیہ الرحمۃ (متوفی 1088ھ)درمختارمیں  فرماتے ہیں:” (يرفع الحدث) مطلقا (بماء مطلق) ۔۔۔۔ (كماء سماء۔۔۔ (وماء زمزم) بلا كراهة“ترجمہ:ہرقسم کاحدث دورکیاجاسکتاہے مطلق پانی سے جیسے آسمان کا پانی اورزمزم کاپانی بغیرکسی کراہت کے ۔

   اس کے تحت علامہ ابن عابدین محمدامین بن عمردمشی حنفی علیہ الرحمۃ(متوفی 1252ھ) رد المحتار میں فرماتے ہیں:” (قوله: مطلقا) أي سواء كان أكبر أو أصغر.۔۔۔(قوله: بلا كراهة)۔۔۔ وسيذكر الشارح في آخر كتاب الحج أنه يكره الاستنجاء بماء زمزم لا الاغتسال. اهـ. فاستفيد منه أن نفي الكراهة خاص في رفع الحدث بخلاف الخبث.“ترجمہ:ہرقسم کاحدث یعنی برابرہے کہ اکبر(بڑامثلافرض غسل کی صورت میں)ہویااصغر(چھوٹابے وضوئی والی حالت)اورعنقریب شارح کتاب الحج کےآخرمیں ذکرفرمائیںگے کہ زمزم کے پانی سے استنجامکروہ ہے نہ کہ غسل کرنا۔(شارح کی عبارت مکمل ہوئی ۔)پس اس سے فائدہ حاصل ہواکہ کراہت کی نفی حدث دورکرنے کے ساتھ خاص ہے برخلاف نجاست کے ۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الطھارۃ،ج 1،ص 180،179، دار الفکر،بیروت)

   امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ الرحمۃ (متوفی 1340ھ)فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: " بالخصوص قابلِ ذکر مائے مبارک زمزم شریف ہے کہ ہمارے ائمہ کرام کے نزدیک اُس سے وضو وغسل بلا کراہت جائز ہے اور ڈھیلے کے بعد استنجا مکروہ اور نجاست دھونا ممنوع۔۔۔۔ تنویرودرمختارمیں ہے "یرفع الحدث مطلقا بماء مطلق کماء سماء واودیۃ وعیون وابار وبحار وماء زمزم بلا کراھۃ وعن احمد یکرہ ۔"(کسی قسم کابھی  حدث ہواسے  مطلق پانی سے دورکیاجاسکتا ہے جیسے آسمان کا پانی، وادیوں، چشموں، کنووں، نہروں، سمندروں اور زمزم کا پانی، زمزم کے پانی سے رفع حدث بلا کراہت ہوتا ہے جبکہ امام احمد سے مروی ہے کہ کراہت کے ساتھ ہوتا ہے۔)نیز حج در میں ہے:یکرہ الاستنجاء بما زمزم لا الاغتسال "(ترجمہ: زمزم کے پانی سے استنجا مکروہ ہے غسل کرنا مکروہ نہیں۔ )شامی میں ہے"وکذا ازالۃ النجاسۃ الحقیقیۃ من ثوبہ اوبدنہ حتی ذکر بعض العلماء تحریم ذلک اھ ۔"(ترجمہ: اور اسی طرح بدن یا کپڑے سے نجاست حقیقیہ کا دور کرنا، یہاں تک بعض علماء نے تو اس کو حرام تک لکھ دیا ہے۔)

   "اقول مطلق الکراھۃ للتحریم واطلاق الحرام علی المکروہ تحریما غیر بعید فلاخلف ۔نعم اذا استنجی بالمدر فالصحیح انہ مطھر فلا یبقی الا اساءۃ ادب فیکرہ تنزیھا بخلاف الاغتسال ففرق بیّن بین القصدی والضمنی ۔ھذا ما ظھر لی ۔"(ترجمہ:میں کہتا ہوں مطلق کراہت سے مراد کراہت تحریمی ہوتی ہے، اور حرام کا اطلاق مکروہ تحریمی پر کوئی بعید امر نہیں، تو کوئی مخالفت نہیں، ہاں اگر کسی نے ڈھیلے سے استنجا کرلیا تو صحیح یہ ہے کہ یہ پاک کرنے والا ہے تو ایسی صورت میں صرف سوءِ ادبی رہے گی اور مکروہِ تنزیہی ہوگا بخلاف غسل کے ۔پس  ارادی اور ضمنی کاموں میں واضح فرق ہے ۔ یہ وہ ہے جومیرے لیے ظاہرہوا۔)

   اقول :یہ بھی دلیل واضح ہے کہ ہمارے ائمہ سے روایت صحیحہ طہارت مائے مستعمل ہے ورنہ غسل واستنجا میں فرق نہ ہوتا۔"(فتاوی رضویہ، ج02،ص452-453،رضافاونڈیشن،لاہور)

میت کوزمزم سے غسل دینا:

   محدث ابوعبداللہ محمدبن اسحاق مکی فاکہی علیہ الرحمۃ (متوفی 272ھ)اخبار مکۃ للفاکھی میں  فرماتے ہیں:” حدثنا العباس بن محمد الدوري قال: ثنا سعيد بن عامر قال: ثنا صالح بن رستم أبو عامر الخزاز، عن ابن أبي مليكة قال: "  كنت أول من بشر أسماء بالإذن في إنزال عبد الله بن الزبير، قال: فانطلقنا إليه، فما تناولنا منه شيئا إلا تابعنا، قال: وقد كانت أسماء وضع لها مركن فيه ماء زمزم، وشب يماني، فجعلنا نناولها عضوا عضوا فتغسله، ثم نأخذه منها فنضعه في الذي يليه، فلما فرغت منه أدرجناه في أكفانه، ۔۔۔ وأهل مكة على هذا إلى يومنا يغسلون موتاهم بماء زمزم، إذا فرغوا من غسل الميت وتنظيفه جعلوا آخر غسله بماء زمزم تبركا به ترجمہ:حضرت ابن ابی ملیکہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سب سے پہلے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنھا کو،حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنھما کے سولی سے اتارے جانے کی خوش خبری دی،پس ہم آپ کی طرف چلے تو جو بھی آپ کے جسم کا ٹکڑا پاتے اسے ساتھ لے لیتے،اور حضرت اسماء کے پاس ایک بڑا برتن رکھا گیا جس میں آبِ زمزم اور شب یمانی تھی ،ہم نے حضرت عبد اللہ کے جسم مبارک کے ایک ایک عضو کو لینا شروع کیا اور حضرت اسماء اسے غسل دیتی گئیں ،پھر ہم اس عضو کو وہاں سے لے کر اس کے ساتھ والے عضوکے قریب میں رکھ دیتے،پھر جب وہ  اس سے فارغ ہوئیں تو ہم نے ان کو ان کے کفن میں رکھ دیا۔۔۔اہل مکہ اس وقت سے لیکر آج تک اپنے مردوں کو آبِ زم زم سے یوں غسل دیتے ہیں کہ جب میت کو غسل دینے اور اس کی پاکی سے فارغ ہوتے ہیں تو آخر میں آبِ زم زم سے بطورِ تبرک اسے غسل دیتے ہیں۔(أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه،ج 2،ص 46،دار خضر،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم