Makrooh Time Mein Namaz e Janaza Parhne Ka hukum?

مکروہ اوقات میں نمازِجنازہ پڑھنے کاحکم

مجیب:ابو محمد محمد سرفراز اختر عطاری

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Mul-410

تاریخ اجراء:28رمضان المبارک1444ھ/19اپریل2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے  کے بارے میں کہ زوال کے وقت نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تین اوقاتِ مکروہہ ( یعنی سورج طلوع ہونے سے لے کر تقریباً 20 منٹ بعد تک، سورج غروب ہونے کے وقت سے تقریباً 20 منٹ پہلے کا دورانیہ اور ضحوۂ کبری یعنی نصف النہارِ شرعی سے لے کر سورج ڈھلنے تک، جسے عوام زوال کے نام سے جانتی ہے، ان ) میں نماز جنازہ سمیت ہر نمازناجائزومکروہ تحریمی ہے، مگر  نمازجنازہ کی  کراہت اسی صورت میں ہے جب کہ جنازہ ان اوقات سے پہلے تیار ہوچکا ہو اور تاخیر کر کے ان اوقات میں پڑھا جائے، البتہ اگر جنازہ تیار ہو کر ان ہی اوقات میں آجائے،تو پھر تاخیر کرنے  اور مکروہ وقت  گزرنے کے انتظار کے بجائے اسی وقت پڑھ لیا جائے،یہ افضل ہے۔

   سنن ترمذی  شریف میں ہے:’’عن علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ  ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لہ :” یا علی ! ثلاث لاتؤخرھن،الصّلٰوۃ اذا اتت والجنازۃ اذاحضرت والایم اذاوجدت لھاکفوا“ حضرت علی بن ابی  طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے  کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا :”  اے علی !تین چیزوں میں دیر نہ کرو:نماز جب اس کاوقت آجائے اور جنازہ جس وقت حاضر ہو، اورزنِ بے شوہر جب اس کا کفو ملے۔(سنن الترمذی   ،ابواب الصلوۃ ،باب ما جاء فی الوقت الاول، صفحہ 58،مطبوعہ بیروت )

   مفتی احمد  یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:”اس حدیث سے معلوم  ہوا   کہ اگر وقت مکروہ میں جنازہ آئے  تب بھی اس پر نماز پڑھ لی جائے ،یہی حنفیوں کا مذہب ہے۔ممنوع یہ ہے کہ  جنازہ پہلے تیار ہو  مگر نماز وقت مکروہ میں پڑھی جائے ۔“ (مرآۃ المناجیح ،جلد 1،صفحہ 374،مطبوعہ قادری  پبلشرز ،لاھور)

   تین اوقات مکروہہ میں نماز کے متعلق تنویر الابصار و در مختار میں ہے:” (وکرہ)تحریما( صلاة ولو علی جنازة مع شروق ،واستواء وغروب الا عصر یومہ)۔ملخصا“سور ج طلوع ہونے،استواء اور غروب کے اوقات میں نماز  مکروہ تحریمی ہے ، اگرچہ نماز جنازہ ہو ،سوائے اس دن کی عصر کے  (کہ اس  میں اگر تاخیر کی یہاں تک  کہ  مکروہ وقت آگیا  ،تو  بھی  غروب سے پہلےادا کرے)۔(تنویر الابصار و در مختار مع رد المحتار ،جلد 2،صفحہ 37۔۔40،مطبوعہ کوئٹہ)

   جنازہ مکروہ  اوقات میں آئے،تو اس کے حکم کے متعلق  تنویر الابصار و در مختار میں ہے :” فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريما.وفي التحفة: الافضل أن لا تؤخر الجنازة‘‘ ملخصا۔پھر اگر دونوں (جنازہ و سجدہ تلاوت)مکروہ وقت میں  واجب ہوں ،تو ان کو کرنا مکروہ یعنی تحریمی نہیں اور تحفہ میں ہے  افضل یہ  ہےکہ جنازہ کو مؤخر نہ کیا جائے۔“(تنویر الابصار و در مختار مع رد المحتار ،جلد 2،صفحہ 43،مطبوعہ کوئٹہ)

   جنازہ تیار ہو کر مکروہ  اوقات میں آجائے،تو پھر تاخیر کرنے کے بجائے اسی وقت پڑھ لیا جائے کہ اس میں تاخیر نہ کرنا افضل ہے،جبکہ سجدہ تلاوت  ان اوقات میں لازم ہو، تو اسی وقت کرنا مکروہ تنزیہی ہے  کہ اس میں جلدی مطلوب نہیں۔

   چنانچہ رد المحتار میں:’’(قوله: فلو وجبتا فيها) أي بأن تليت الآية في تلك الأوقات أو حضرت فيها الجنازة. قولہ ( وفی التحفۃ ۔۔الخ)هو كالاستدراك على مفهوم قوله أي تحريما، فإنه إذا كان الأفضل عدم التأخير في الجنازة فلا كراهة أصلا، وما في التحفة أقره في البحر والنهر والفتح والمعراج  لحدیث " ثلاث لا یؤخرن :منھا الجنازۃ اذا حضرت "وقال فی شرح المنیۃ " والفرق بینھا وبین سجدۃ التلاوۃ ظاھر لان التعجیل فیھا مطلوب  مطلقا الا لمانع  وحضورھا فی وقت مباح  مانع من الصلوۃ  علیھا فی وقت مکروہ  بخلاف حضورھا فی وقت مکروہ  وبخلاف سجدۃ التلاوۃ  لان التعجیل لا یستحب فیھا مطلقا  ای بل یستحب فی وقت مباح فقط  فیجب کراھۃ التنزیہ  فی سجدۃ التلاوۃ دون صلاۃ الجنازۃ ملخصا  ‘‘ شارح علیہ الرحمۃ  کا قول کہ( اگر دونوں وقت مکروہ میں واجب ہوں) یعنی اس طور پر کہ آیت سجدہ ان اوقات میں پڑھی جائے یا جنازہ ان اوقات میں حاضر ہو، شارح علیہ الرحمۃ کا قول (اور تحفہ میں ہے )یہ ان کے قول تحریما  کے مفہوم پر گویا استدراک ہے  کہ جب جنازہ میں تاخیر نہ کرنا افضل ہے، تو کوئی کراہت نہیں ہے  اور جو تحفہ میں ہے بحر و نہر  و فتح اور معراج میں اسی کو برقرار رکھا ہے   اس حدیث کی وجہ سے کہ تین چیزوں میں تاخیر نہ کی جائے ان میں سے ایک جنازہ ہے،جب حاضر ہوجائے۔" اور شرح  منیہ میں فرمایا  " نماز جنازہ اور سجدہ تلاوت میں فرق ظاہر ہے  ،کیونکہ جنازہ میں مطلقاً جلدی مطلوب ہے ، جبکہ مانع نہ ہو،اور وقت مباح میں اس کا حاضر ہونا ،وقت مکروہ میں اس پر نماز پڑھنے سے مانع ہے ، برخلاف وقت مکروہ میں حاضر ہونے کےاوربرخلاف سجدہ تلاوت کےکہ اس میں جلدی مطلقاً مستحب نہیں یعنی فقط وقت مباح میں مستحب ہے،لہذا سجدہ تلاوت میں کراہت تنزیہی ہے ،نماز جنازہ میں نہیں۔“(رد المحتار ،جلد 2،صفحہ 43،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:’’جنازہ اگر اوقات ممنوعہ  میں لایا گیا، تو اسی وقت پڑھیں کوئی کراہت نہیں ،کراہت اس صورت میں ہے   کہ بیشتر سے تیار موجود ہے  اور تاخیر کی یہاں تک کہ وقت کراہت آگیا۔‘‘(بھار شریعت ،جلد 1،صفحہ 454،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   تین  مکروہ اوقات کی تفصیل کے متعلق بہار شریعت میں ہے:’’اوقاتِ مکروہہ: طلوع و غروب و نصف النہار، ان تینوں وقتوں میں کوئی نماز جائز نہیں، نہ فرض، نہ واجب، نہ نفل، نہ ادا، نہ قضا۔۔طلوع سے مراد آفتاب کا کنارہ ظاہر ہونے سے اس وقت تک ہے کہ اس پر نگاہ خیرہ ہونے لگے، جس کی مقدار کنارہ چمکنے سے 20 منٹ تک ہے اور اس وقت سے کہ آفتاب پر نگاہ ٹھہرنے لگے ڈوبنے تک غروب ہے، یہ وقت بھی20 منٹ ہے، نصف النہار سے مراد نصف النہار شرعی سے نصف النہار حقیقی یعنی آفتاب ڈھلکنے تک ہے، جس کو ضحوۂ کبریٰ کہتے ہیں، یعنی طلوع فجر سے غروب آفتاب تک آج جو وقت ہے، اس کے برابر ، برابر دو حصے کریں، پہلے حصہ کے ختم پر ابتدائے نصف النہار شرعی ہے اور اس وقت سے آفتاب ڈھلنے تک وقت استوا و ممانعت ہر نماز ہے ۔ملخصا‘‘(بھار شریعت، جلد 1 ، صفحہ 454، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم