Mayyat Ko Charpai Se Utaar Kar Zameen Par Rakh Kar Janaza Parhna Kaisa?

میت کو چارپائی سے اُتار کر زمین پر رکھ کر جنازہ پڑھنا کیسا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13194

تاریخ اجراء:09جمادی الثانی1445ھ/23دسمبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ بعض جگہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ نمازِ جنازہ سے پہلے میت کو چارپائی سے اتار کر امام کے سامنے زمین پر رکھا جاتا ہے اور اس پر نمازِ جنازہ ادا کی جاتی ہے، کیا اس صورت میں نمازِ جنازہ درست ادا ہوجائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نمازِ جنازہ کی درست ادائیگی کے لیے میت کو ڈولی سے اتار کر زمین پر رکھنا ضروری نہیں، بلکہ میت ڈولی ہی میں ہو اور نمازِ جنازہ پڑھنے والے یا پڑھانے والے امام کے سامنے موجود ہو اور امام کی محاذات میں ہو، تو اس صورت میں بھی نمازِ جنازہ درست ادا ہوجاتی ہے ، لہذا  پوچھی گئی صورت میں نمازِ جنازہ درست ادا ہوگی۔ 

   میت کا امام کے سامنے ہونا نمازِ جنازہ کی درست ادائیگی کے لیے ضروری ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”و شرطھا ایضاً حضورہ(و وضعہ) و کونہ ھو او اکثرہ (امام المصلی) یعنی نمازِ جنازہ کی درست ادائیگی کے لیے پوری میت یا پھر میت کے اکثر حصے کا وہاں  موجود  ہونا اور نماز جنازہ پڑھنے والے  کے سامنے رکھا  ہونا شرط  ہے۔

    (و وضعہ) کے تحت رد المحتار میں ہے:ای علی الارض او علی الایدی قریباً منھا۔  ترجمہ: ”یعنی میت زمین پر یا ہاتھوں پر زمین کے قریب رکھی ہوئی ہو۔“ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 03، ص 123، مطبوعہ کوئٹہ)

   بحر الرائق میں ہے:” وزاد في فتح القدير وغيره شرطا ثالثا في الميت وهو وضعه أمام المصلى۔“یعنی صاحبِ فتح القدیر وغیرہ نے میت کے حق میں ایک تیسری شرط کا بھی اضافہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ میت کا نماز جنازہ پڑھنے والے  کے سامنے  رکھا ہونا  ہے  ۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 193، دار الكتب الاسلامی)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ:”نمازِ جنازہ اس طرح ادا کرنا کہ میّت چارپائی پر ہو اور چارپائی کے پائے ایک ہاتھ سے زائد بلند ہوں جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کس دلیل سے جائز ہے؟“آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”نماز کے وقت میت کا چارپائی پر ہونا صدرِ اولٰی  معمول مسلمانان ہے اس کے پائے حسبِ عادت ہاتھ بھر یا کم یا کبھی زائد ہرطرح کے ہوتے ہیں، کبھی اس پر انکار نہیں ہوا۔ ۔۔۔ ہاں اگرپلنگ اتنا اونچا ہو کہ قد آدم سے زائد، جس میں امام کی محاذات میت کے کسی جزو سے نہ ہو، تو البتہ نماز ناجائز ہو گی کہ محاذات شرط ہے، مگر کوئی پلنگ اتنا اونچا نہیں ہوتا۔"فی رد المحتار عن جامع الرموز عن تحفۃ الفقھاء ان رکنھا القیام و محاذاتہ الی جزء من اجزاء المیت (یعنی رد المحتار میں جامع الرموز سے اور اس میں تحفۃ الفقہاء کے حوالے سے منقول ہے کہ نماز جنازہ کا ، رکن قیام اور میت کے اجزاء میں سے کسی ایک جزء کا محاذی ہونا ہے)۔"“(فتاوٰی رضویہ، ج09، ص190-189، رضا فاونڈیشن، لاھور، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے: ”جنازہ زمین پر رکھا ہونا یا ہاتھ پر ہو مگر قريب ہو ۔۔۔۔۔میّت امام کے محاذی ہو یعنی اگر ایک میّت ہے تو اُس کا کوئی حصۂ بدن امام کے محاذی ہو اور چند ہوں تو کسی ایک کا حصۂ بدن امام کے محاذی ہونا ، کافی ہے۔“ (بہارِ شریعت، ج01، ص828، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

   حبیب الفتاوٰی  میں ہے: ” اگر میت کسی ایسے جنازہ اور سریر پر ہویا چارپائی و مسہری پر ہویا اور کسی اونچے چبوترے وغیرہ پر یا ہاتھوں پر زمین سے قریب ہو کہ تنہا نماز جنازہ پڑھنے والے یا نماز جنازہ پڑھانے والے امام کے مقابلہ و محاذات میں میت رہے ، یعنی مقابلہ و محاذات نماز پڑھانے والے امام یا تنہا نماز جنازہ پڑھنے والے شخص سے میت کا باقی رہے، تو نماز جنازہ جائز و صحیح ہو گی۔(حبیب الفتاوٰی، ص 560، شبیر برادرز، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم