Mayyat Ko Ghusal Dene Ki Ujrat Lena Kaisa?

میت کو غسل دینے کی اجرت لینا کیسا؟

مجیب:ابو محمد محمد سرفراز اختر عطاری

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Mul-594

تاریخ اجراء:19جمادی الاخری1444ھ/12جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میت کو نہلانے کی اجرت لینا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   میت کو بغیر کسی اجرت کےغسل دینا افضل و بہتر ہے۔اجرت لینے کے حوالے سے دو صورتیں ہیں :(1)اگر اس کے علاوہ کوئی اور بھی اس قابل ہو جو غسل دے سکے ،تو اجرت لینا جائز ہے ۔(2) اگر اس کے علاوہ کوئی اوراس قابل  نہ ہو،صرف یہی غسل دے سکتا ہو،تو اجرت لینا جائز نہیں ہے،کیونکہ اس صورت میں اسی پر غسل دینا واجب ہے اور واجب پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔

   تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:” (‌والأفضل ‌أن ‌يغسل) ‌الميت (مجانا، فإن ابتغى الغاسل الأجر جاز إن كان ثمة غيره وإلا لا) لتعينه عليه “اور افضل یہ ہے کہ میت کو بلا اجرت غسل دے اور اگر غسل دینے والا اجرت چاہے،تو جائز ہے،جبکہ اس کے علاوہ کوئی اور غسل دینے والا موجود ہو اور اگر کوئی اور نہ ہو،تو اس پر متعین ہونے کی وجہ سے اجرت لینا جائز نہیں۔(تنویر الابصارودرمختار  مع ردالمحتار،ج03،ص108،107،مطبوعہ کوئٹہ)

   ردالمحتار میں ہے:” قوله :( لتعينه عليه) أي لأنه صار واجبا عليه عينا، ولا يجوز أخذ الأجرة على الطاعة كالمعصية“شارح علیہ الرحمۃکا قول:( اس پر متعین ہونے کی وجہ سے) کیونکہ اب اس پر  غسل دیناواجب لعینہ ہے اور طاعت پر اجرت لینا جائزنہیں ،جیسےگناہ پر اجرت لینا جائز نہیں۔ (ردالمحتار علی الدرمختار،ج03،ص108،مطبوعہ کوئٹہ)

   وقار الفتاوی میں ہے:”میت کو غسل دینے پر اجرت لینے کی دوصورتیں ہیں۔اگرغسل دینے والے اور بھی ہیں ،تو اجرت لینا جائز ہےاور اگر دوسرا کوئی غسل دینے والا نہیں ہے،تو اس پر غسل دینا واجب ہے اور واجب پر اجرت لینا حرام ہے۔“ (وقار الفتاوی،ج02،ص177،مطبوعہ بزم وقارالدین )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم