Mayyat Ko Ghusl Dene Ke Baad Najasat Nikle Tu Hukum

میت کو غسل دینے کے بعد نجاست نکلے تو کیا حکم ہے ؟

مجیب: مولانا محمد علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2514

تاریخ اجراء: 19شعبان المعظم1445 ھ/01مارچ2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میت کو دو بار غسل دینا کیسا ہے اور اگر پہلے غسل کے بعد اس سے نجاست ظاہر ہو، تو کیا پھر سے غسل دینا ہو گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جب کوئی شخص فوت ہو جائے، تو اسے ایک ہی غسل دیا جائےگا(جس میں سارے جسم پرتین بارپانی بہاناسنت ہے)۔اور ایک بار غسل دینے کے بعد دوبارہ غسل کی مطلقاً کسی حال میں حاجت نہیں، یہاں  تک کہ اگر غسل کے بعد کوئی نجاست بر آمد ہو، تو بھی نئے سرے سے غسل نہ دیا جائے، بلکہ صِرف اس نجاست کو دھو دیا جائے، یہی کافی ہے۔

   اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:’’فان خرج منہ شیء غسلہ لازالۃ النجاسۃ عنہ ولا یعید غسلہ ولا وضوءہ، لانہ لیس بناقض فی حقہ‘‘ ترجمہ: غسل کے بعد میت کے بدن سے کوئی چیز خارج ہو، تو اسے دھو دیا جائے تاکہ اس سے نجاست زائل ہو جائے اور وضو و غسل کا اعادہ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ میت کے حق میں ناقض نہیں‘‘۔(اللباب فی شرح الکتاب، کتاب الصلوۃ، باب الجنائز، جلد 1، صفحہ 127، مطبوعہ بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ مختلف سوالات کے جواب میں فرماتے ہیں:’’ غسل ایک دیا جائے گا ۔۔۔غسل دوبارہ دینے کی مطلقاً کسی حال میں حاجت نہیں، اگر نجاست بر آمد ہو، دھو دی جائے‘‘۔(فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 98، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے پوچھا گیا کہ بعض کہتے ہیں: میت کو تین غسل دینے چاہئیں، یہ صحیح ہے یا غلط؟ "

   تو جواباً ارشاد فرمایا: "تین مرتبہ ہر جگہ سے پانی بہایا جانا سنت ہے اور یہ ایک غسل ہے۔ تین غسل دینے کا اگر یہی مطلب ہے، تو خیر، ورنہ لغو۔"(فتاوی امجدیہ، حصہ 1، صفحہ 331، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم