Namaz e Janaza Me Salam Pherne Aur Hath Chorne Ka Durust Tarika?

نمازِ جنازہ میں سلام پھیرنے اور ہاتھ چھوڑنے کا درست طریقہ

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8583

تاریخ اجراء:07ربیع الاخر 1445ھ/23  اکتوبر    2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ بعض لوگوں کو دیکھا ہے نماز جنازہ کے آخر میں ہاتھ چھوڑ کر سلام پھیرتے ہیں اور کچھ لوگ ہاتھ باندھ کر  سلام پھیرتے ہیں،جبکہ بعض دائیں طرف سلام پھیرنے کے بعد دایاں ہاتھ اور بائیں جانب سلام پھیرنے کے بعد بایاں ہاتھ کھولتے ہیں۔شرعی رہنمائی فرمائیے اس بارے میں درست طریقہ کیا ہے؟کیا چوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ چھوڑ کر سلام پھیرنا ہے؟اگر یہی درست طریقہ ہے ،تو جو اس کا الٹ کرے، اس کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نمازوں میں کس مقام پر ہاتھ باندھنے ہیں اور کس پر نہیں،اِس کے متعلق اُصول یہ ہے کہ ہر وہ قیام جس میں قرار (ٹھہراؤ) ہو اور اُس میں کوئی مسنون ذکر ہو،تو اس میں ہاتھ باندھنا سنت ہے،جیسےثناء اور دعائے قنوت پڑھتے ہوئے اور جس میں کوئی مسنون ذکر نہ ہو،تو اس میں ہاتھ نہ باندھنا سنت ہے،بلکہ یونہی لٹکادینا سنت ہے،جیساکہ تکبیرات ِعیدین کے وقت  کہ نہ تو وہ ذی قرار قیام ہے اور نہ ہی اس میں کوئی مسنون  ذکر ہے۔

   اس تفصیل کے بعد صورتِ مسئولہ کا جواب یہ ہےکہ نماز جنازہ میں چوتھی تکبیر سے پہلے تک ہر تکبیر کے بعد ذکرِ مسنون اور قرار  (ٹھہرنا) موجود ہے،  اس لیے چوتھی تکبیر سے پہلے تک ہاتھ  باندھنا سنت ہے،مگر چوتھی تکبیر کے بعد کوئی ذکرِ مسنون موجود نہیں اور نہ ہی اب ٹھہرنے کا حکم ہے،بلکہ اب خُرُوج عَنِِ الصَّلاۃ یعنی نماز سے نکلنے کا وقت ہے اور نماز سے نکلنے کے لیےشریعت میں کہیں بھی ہاتھ باندھنا لازم نہیں کیا گیا،لہٰذا چوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ چھوڑ کر ہی سلام پھیرنا سنت اور دُرست طریقہ ہے، ہاتھ باندھ کرسلام پھیرنا یا دائیں طرف سلام پھیرکر دایاں ہاتھ اور بائیں طرف سلام پھیرکر بایاں ہاتھ چھوڑنا سنت  نہیں۔ فقہائے کرام نے یونہی  تصریح فرمائی ہے،تاہم اگر کسی نے یہ طریقہ اختیار کر لیا ہو،تو اس کی نماز ہو گئی کہ اصلِ نماز یا کسی رکنِ نماز میں خلل واقع نہیں ہوا۔

   نماز میں ہاتھ باندھنے اور کھولنے کے متعلق اُصول بیان کرتے ہوئے علامہ بُرہانُ الدین  مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 593ھ/ 1196ء)  لکھتے ہیں:والأصل أن كل قيام فیہ ذکر مسنون يعتمد فيه ومالا فلا هو الصحيحترجمہ:اور اُصول  یہ ہےکہ ہروہ قیام جس میں ذکرِ مسنون ہو،اس میں ہاتھ باندھے گا اور وہ قیام جس میں  مسنون ذکر نہیں،اس میں ہاتھ نہیں باندھےگا،یہی صحیح ہے۔(الھدایہ، كتاب الصلاۃ  ،باب صفۃ الصلاۃ ، جلد1، صفحہ 101،مطبوعہ لاھور)

   اسی طرح جوہرۃ النیرہ ،فتح القدیر ،بنایہ شرح ہدایہ ،مجمع الانہر ،طحطاوی اور عامۂ کتب فقہ میں ہے۔

   اسی طرح ہاتھ باندھنا اُس قیام کی سنت ہے ،جس میں قرار ہو،چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 970ھ/ 1562ء)اور علامہ شمس الدین تمرتاشی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1004ھ) لکھتےہیں،واللفظ للثانی وبین القوسین عبارۃ رد المحتار:وهو سنة قیام له قرار فیه ذکر مسنون (ای:مشروع فرضا اوکان واجبا او سنۃ) فیضع حالة الثناء،وفي القنوت و تکبیرات الجنائزترجمہ:نماز میں ہاتھ باندھنا اس قیام کی سنت ہے جس میں قرار اور ذکرِ  مسنون  یعنی مشروع ذکر ہو،خواہ  فرض،واجب یا سنّت ہو، لہٰذا ثناء،دعائے قنوت اور جنازے کی چار تکبیروں تک ہاتھ باندھ کر رکھے گا۔ (تنویر الابصار مع درمختار،جلد2،صفحہ 229 ، 230،مطبوعہ کوئٹہ )

   نماز جنازہ میں چوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ چھوڑ کر سلام پھیرنے  کی تصریح کرتے ہوئے علامہ طاہر بن احمد بن عبد الرشيدبخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:542ھ) لکھتے ہیں:ولا یعقد بعد التکبیر الرابع لانہ لایبقی ذکر مسنون حتی یعقد فالصحیح انہ یحل الیدین ثم یسلم تسلیمتین ھکذا فی الذخیرۃترجمہ:اور چوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ نہیں باندھے گا،کیونکہ اب کوئی مسنون ذکر باقی نہ رہا کہ جس کے لیے ہاتھ باندھےرکھے، لہٰذا صحیح یہ ہے کہ وہ دونوں ہاتھ کھول دے،پھردونوں سلام پھیرے،یونہی  ذخیرہ میں ہے ۔(خلاصۃ الفتاوی،کتاب الصلاۃ،جلدصفحہ 225، مطبوعہ کوئٹہ)

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) سے سوال ہو اکہ نمازِ جنازہ میں سلام ہاتھ چھوڑنے کے بعد پھیرنا چاہیے یا قبل ہاتھ چھوڑنے کے،افضل کیا ہے؟تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:ہاتھ باندھنا سُنّت اس قیام کی ہے جس کے لیے قرار ہو،کما فی الدرالمختاروغیرھامن الاسفار،سلام وقتِ خروج ہے اُس وقت ہاتھ باندھنے کی طرف کوئی داعی نہیں،توظاہر یہی ہے کہ تکبیر ِچہارم کے بعد ہاتھ چھوڑ دیاجائے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد9،صفحہ194،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اسی صفحہ پر ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:ظاہر ہے کہ چوتھی تکبیر کے بعد نہ قیامِ ذی قرار ہے،نہ اس میں کوئی ذکرِ مسنون،توہاتھ باندھے رہنے کی کوئی وجہ نہیں۔تکبیرِرابع کے بعد خروج عن الصلاۃ  کاوقت ہے اور خروج کے لیے اعتماد (ہاتھ باندھنا)کسی مذہب میں نہیں۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد9،صفحہ194،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) سے سوال ہوا:نمازِ جنازہ میں ہاتھ کھول کر سلام پھیرنا چاہیے یا باندھ کر یا دونوں طرح جائز ہے ؟تو آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ  نے جواباً ارشا د فرمایا:ہاتھ کھول کر سلام پھیرنا چاہیے۔یہ خیال کہ تکبیرات میں ہاتھ باندھے رہنا مسنون ہے،لہٰذا سلام کے وقت بھی ہاتھ باندھے رہنا چاہیے،یہ خیال غلط ہے ۔ وہاں ذکرِ طویل مسنون موجود ہے،اس پر قیاس،قیاس مع الفارق ہے۔(فتاوی امجدیہ ، جلد 1، صفحہ 317 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی)

   یونہی فتاوی نوریہ میں ہے۔(فتاویٰ نوریہ ،جلد2،صفحہ275،مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم