Namaz e Janaza Mein Salam Hath Chor Kar Ya Bandh Kar Pheren?‎

نمازِ جنازہ میں سلام ہاتھ چھوڑ کر یا باندھ کر پھریں؟

مجیب:مولانا طارق صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:faj:4797

تاریخ اجراء:16شعبان المعظم1439ھ/03مئی2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نمازِ جنازہ میں چوتھی تکبیر کے بعد دونوں ہاتھ چھوڑکرسلام پھیریں گے یا سیدھی طرف سلام پھیرتے وقت سیدھا ہاتھ چھوڑدیں گے اور الٹی طرف سلام پھیرتے وقت الٹا ہاتھ چھوڑ دیں گے؟درست طریقہ کیا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     نماز میں حالتِ قیام میں ہاتھ باندھنا وہاں سنت ہے ، جہاں قیام میں مسنون ذکر ہو اور اگر حالتِ قیام میں مسنون ذکر نہیں ، تو ہاتھ لٹکانا(نہ باندھنا) سنت ہے اور نمازِ جنازہ کی چوتھی تکبیر کے بعد ذکرِ مسنون نہیں ، لہٰذاچوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ باندھنا سنت نہیں بلکہ ہاتھ لٹکانا سنت ہے ۔

     خلاصۃ الفتاوی میں ہے : ولا یعقد بعد التکبیر الرابع لانہ لایبقی ذکر مسنون حتی یعقد فالصحیح انہ یحل الیدین ثم یسلم تسلیمتین ھکذا فی الذخیرۃترجمہ:اور چوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ نہیں باندھے گا ، کیونکہ اب کوئی مسنون ذکر باقی نہ رہا ، جس کے لیے ہاتھ باندھے ، پس صحیح یہ ہے کہ وہ دونوں ہاتھ کھول دے گا ، پھردونوں سلام پھیرے گا ۔ اسی طرح ذخیرہ میں ہے ۔(خلاصۃ الفتاوی ، جلد 1، صفحہ 225، مطبوعہ کوئٹہ)

     مجمع الانھر میں ہے : قال شمس الأئمة الحلوانی: ان كل قيام ليس فيه ذكر مسنون فالسنة فيه الارسال وكل قيام فيه ذكر مسنون فالسنة فيه الوضع وبه كان يفتی شمس الأئمة السرخسی والصدر الكبير برهان الأئمة والصدر الشهيد ترجمہ:شمس الائمہ حلوانی نے فرمایا :ہروہ قیام جس میں مسنون ذکر نہیں ، اس میں ہاتھ لٹکانا سنت ہے اور ہر وہ قیام جس میں ذکر مسنون ہے ، اس میں ہاتھ باندھنا سنت ہے اور یہی فتویٰ شمس الائمہ سرخسی اور صدرِ کبیر برہان الائمہ اور صدرِ شہید علیهم الرحمۃ دیا کرتے تھے۔(مجمع الانھر ، جلد1، صفحہ141، مطبوعہ کوئٹہ)

     صدرالشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے ایک سوال ہوا: ’’نمازِ جنازہ میں ہاتھ کھول کر سلام پھیرنا چاہیے یا باندھ کر یا دونوں طرح جائز ہے ؟ ‘‘ تو آپ علیہ الرحمۃ نے اس کے جواب میں ارشا د فرمایا : ” ہاتھ کھول کر سلام پھیرنا چاہیے۔ یہ خیال کہ تکبیرات میں ہاتھ باندھے رہنا مسنون ہے ، لہٰذا سلام کے وقت بھی ہاتھ باندھے رہنا چاہیے ، یہ خیال غلط ہے ۔ وہاں ذکر طویل مسنون موجود ہے ، اس پر قیاس،قیاس مع الفارق ہے۔“(فتاوی امجدیہ ، جلد 1، صفحہ 317 ، مطبوعہ مکتبہ رضویہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم