Qabar Ke Paas Agarbatti Jalane Ka Hukum

قبر کے پاس اگر بتی جلانے کا حکم

مجیب: ابو مصطفیٰ محمد ماجد رضا  عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-341

تاریخ اجراء:        25ذو القعدۃ الحرام 1443 ھ/25جون 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   قبر کے پاس اگربتی لگانا کیسا جیسا کہ عموماً لوگ اپنے رشتہ داروں کی قبر پر جاتے ہیں اور اگربتی جلاتے ہیں، کچھ دیر فاتحہ خوانی کرکے واپس آجاتے ہیں اور وہ اگربتی وہیں جلتی رہتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قبر پر اگر بتی جلانا بہرحال ممنوع ہے،اگرقبر کے پاس قرآن پڑھنے والے موجود ہوں اور انہیں نفع پہنچانے کی غرض سے قبر سے ہٹ کراگر بتی جلائی جائے ،تو یہ جائز ومستحسن ہے اور اگر وہاں قرآن خوانی یا اوراد وظائف کا سلسلہ  نہیں محض قبر  کے لیے جلائی ہے تویہ بھی منع  ہے ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے :’’ عود لوبان وغیرہ کوئی چیز نفسِ قبر پر رکھ کرجلانے سے احتراز چاہئے اگر چہ کسی برتن میں ہو۔۔۔اورقریب قبر سلگا کر اگر وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوں نہ کوئی تالی یا ذاکر ہو بلکہ صرف قبر کے لیے جلا کر چلاآئے تو ظاہر منع ہے کہ اسراف و اضاعتِ مال ہے۔۔۔اوراگر بغرض حاضرین وقت فاتحہ خوانی یا تلاوت قرآن مجید وذکر الہٰی سلگائیں تو بہتر ومستحسن ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد:9،صفحہ:482،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم