Qabar Se Ghas Saaf Karna Kaisa Hai ?

قبر سے گھاس صاف کرنا کیسا ہے ؟

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2212

تاریخ اجراء: 01جمادی الاول1445 ھ/16نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کچی قبروں سےگھاس صاف کرنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں قبروں پر اُگی ہوئی تر گھاس کو کاٹنا ، اکھیڑنا یا صاف کرنا مکروہ ہے  ، کیونکہ گھاس جب تک تَر رہے ، اللہ پاک کی تسبیح کرتی رہتی ہے ، جس سے میت کو فائدہ حاصل ہوتا ہے اور اس کی تسبیح سے رحمت کا نزول ہوتا ہے، لہٰذا اسے صاف کرنے میں میت کے حق کو ضائع کرنا ہے اور اگر گھاس خشک ہو گئی ہو ، تو ایسی صورت میں اسے کاٹنے اور صاف کرنے میں حرج نہیں ہے ۔ البتہ گھاس کو صاف کرنے کے لیے قبر پر آگ جلانا ، ناجائز و مکروہِ تحریمی ہے ۔

   رد المحتار میں ہے:”یکرہ قطع النبات الرطب و الحشیش من المقبرۃ دون الیابس کما فی البحر و الدرر و شرح المنیۃ، و عللہ فی الامداد بانہ ما دام رطباً یسبح اللہ تعالیٰ فیؤنس المیت و تنزل بذکرہ الرحمۃاھ ، ونحوہ فی الخانیۃ۔۔۔ لان فیہ تفویت حق المیت ، ملخصا یعنی قبر سے تَر پودے اور تر گھاس کو کاٹنا مکروہ ہے ، نہ کہ خشک کو جیسا کہ یہ مسئلہ بحر، درر اور  شرح منیہ میں مذکور ہے۔ امداد میں اس کی وجہ یوں بیان کی ہے کہ جب تک یہ پودا تر رہے گا ، تب تک اللہ پاک کا ذکر کرتا رہے گا ، جس سے میت کو اُنسیت حاصل ہو گی اور اس کے ذکر سے رحمت نازل ہو گی اور اسی کی مثل خانیہ میں مذکور ہے ، کیونکہ اس(کاٹنے) میں میت کا حق ضائع کرنا ہے۔(رد المحتار، جلد 3، صفحہ 184، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے” ہمارے علماء ۔۔۔ فرماتے ہیں: ''مقبرے کی گھاس (سبز) کاٹنا مکروہ ہے کہ جب تک وہ( گھاس سبز) تر رہتی ہے اﷲ تعالٰی  کی تسبیح کرتی ہے، اس (سبز گھاس) سے اموات کادل بہلتا ہےاور ان پر رحمتِ الہٰی  کا نزول ہوتا ہے ،ہاں خشک گھاس کاٹ لینا جائز ہے مگر وہاں سے تراش کر جانوروں کے پاس لے جائیں، او ریہ ممنوع ہے کہ انھیں گورستان میں چرنے چھوڑدیں''۔(فتاوی رضویہ،ج 9،ص 443،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”قبر پر سے تر گھاس نوچنا نہ چاہیے کہ اس کی تسبیح سے رحمت اترتی ہے اور میت کو اُنس ہوتا ہے اور نوچنے میں میت کا حق ضائع کرنا ہے۔“ (بھارِ شریعت، جلد 1، حصہ 04،صفحہ 852، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں : ”قبرستان میں آگ جلانا بھی مکروہِ تنزیہی ہے،جبکہ قبرپرنہ ہو ۔ “ اس کے تحت حاشیے میں شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”اور اگر قبر پر آگ جلائیں،تو ناجائز و گناہ ۔“(فتاوی امجدیہ،ج1،ص362،مکتبہ رضویہ،کراچی) 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم