Qabristan Par Chat Bana Kar Janaza Gah Banane Ka Sharai Hukum?

قبرستان پر چھت بنا کر جنازگاہ بنانے کا شرعی حکم ؟

مجیب:عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عفی عنہ

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-6828

تاریخ اجراء:29 محرم الحرام1443ھ/07ستمبر2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں کافی پرانا ایک وقفی قبرستان ہے، جس کے گرد چار دیواری بنی ہوئی ہے، ہمارے علاقے میں جنازہ پڑھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، کبھی سٹرک پر اور کبھی گلیوں میں نماز جنازہ پڑھتے ہیں۔ اب ہمارے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ قبرستان کے کچھ حصے پر چھت ڈال کر اوپر جنازہ گاہ بنا دی جائے، کیا اس طرح کرنا ، شرعاً جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صورت مسئولہ میں اگر اس طرح ممکن ہو کہ قبرستان کی وقف جگہ  سے باہر ستون قائم کر کے اوپر چھت ڈال کر اس چھت کو جنازہ گاہ قراردیا جائے، اس طرح کہ قبرستان کی زمین نہ رکے، نہ اس میں دعاکےلیےمردوں کےعزیز و اقارب کے  آنے جانے کا راستہ رکے،نہ اس چھت کے ستون مسلمانوں کی قبورپر واقع ہوں، بلکہ قبرستان کی وقف جگہ کی حدود سے باہر ہوں ، تو اس صورت میں چھت ڈال کر اس پر مسجد یا مدرسہ بنانے میں کوئی حرج نہیں،جبکہ جس زمین میں ستون قائم کیے جائیں،اگر وہ کسی مسلمان کی ملک ہے، تووہ  مالک اسے اس کام کے لیے وقف کردے  اور اگر گورنمنٹ کی اُفتادہ(ناکارہ)زمین ہے ،تو اس کاروائی سے مسلمانوں کے راستے وغیرہ کو ضرر نہ ہو اور کاروائی اہلِ محلہ خود کریں یا ان کے اذن سے ہو کہ ان حالتوں میں کوئی بے جا تصرف نہیں ہو گا، نہ وقف رکے گا، نہ اس کی زمین کسی دوسرے کام میں صرف ہو گی، صرف بالائی ہوا،جو نہ موقوف تھی نہ مملوک، اس میں ایک تصرف ہوگا، جومسلمانوں کے نفع کے لیے ہے، اس میں کسی قسم کا ضرر نہیں ہے۔ اگر ستون قبرستان کی وقف جگہ میں ہوں، تو یہ جائز نہیں ہو گا، اگرچہ کسی قبر پر نہ ہوں، کیونکہ یہ جگہ قبرستان  کے لیے وقف ہے،  تو اس میں صرف قبریں ہی بنائی جا سکتی ہیں، اس کے علاوہ کسی اور کام میں اس کو استعمال کرنا ،جائز نہیں۔

   سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن قبرستان پر چھت ڈال کر اس کو مسجد کردینے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”مسجد قدیم لب مقبرہ واقع ہے، یہ بیرون حدودمقبرہ ستون قائم کر کے اوپر کافی بلندی پر پاٹ کر چھت کو صحن مسجد سابق سے ملا کر مسجد کردینا چاہتا ہے، اس طرح کہ زمین مقبرہ نہ رکے، نہ اس میں دفن مَوتٰی کرنے اور اس کی غرض سے لوگوں کے آنے جانے کی راہ رکے ،نہ اس چھت کے ستون قبور مسلمین پر واقع ہوں، بلکہ حدود مقبرہ سے باہر ہوں کہ اس میں حرج نہیں، جبکہ وہ زمین جس میں ستون قائم کیے گئے، متعلق مسجد ہو اور کاروائی اہل محلہ کی یا ان کے اذن سے ہو یا وہ زمین اس بانی سقف یا کسی دوسرے مسلمان کی ملک ہو اور مالک اسے ہر کام کے لیے وقف کردے یا وہ زمین افتادہ بیت المال کی ہو اور اس میں اس کاروائی سے مسلمانوں کے راستے وغیرہ کو ضرر نہ ہو کہ ان حالتوں میں اس نے کوئی بے جا تصرف نہ کیا، نہ وقف کو روکا، نہ اس کی زمین کو کسی دوسرے کام میں صرف کیاصرف بلائی ہوامیں کہ نہ موقوف تھی، نہ مملوک، ایک تصرفِ غیر مضرنفع مسلمین کے لیےکیا ۔

   ہندیہ میں حق عام کی شے پاٹ کر اس پر مسجد اس طرح بنانے کا جس سے ان حقوق کو ضرر نہ پہنچے جزئیہ یہ ہے:” فی نوادر ھشام سألت محمد الحسن عن نھر قریۃ کثیرۃ الأھل لا یحصی عددھم و ھو نھر قناۃ أو نھر واد لھم خاصۃ، و أراد قوم أن یعمروا بعض ھٰذا النھر و یبنوا علیہ مسجدا و لا یضر ذٰلک بالنھر و لا یتعرض لھم أحد من أھل النھر، قال محمد رحمہ اللہ تعالیٰ یسعھم أن یبنوا ذٰلک المسجد للعامۃ أو المحلۃ کذا فی المحیط“ہشام نے نوادر میں کہا کہ میں نے امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے دریافت کیا: ایک کثیر آبادی والے قصبہ میں ایک نہر ہے، جو کہ جنگل یا پہاڑ کے نالے کی صورت میں ہے اور وہ خاص انہی لوگوں کی ہے، اب کچھ لوگوں کا ارادہ ہوا کہ وہ نہر کے کچھ حصہ پر تعمیر کر کے مسجد بنا دیں، اس سے نہ تو نہر کو کوئی نقصان ہے اور نہ ہی نہر والوں میں سے کسی کو کوئی اعتراض ہے؟ تو امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا : ان لوگوں کو ایسی مسجد بنانے کا اختیار ہے، چاہے وہ مسجد اہل محلہ کے لیے بنائیں یا عام لوگوں کے لیے، جیسا کہ محیط میں ہے۔

   اور یہیں سے ظاہر ہو گیا کہ وہ سقف بھی مسجد ہو جائے گی اور اس میں نمازی کو ثواب مسجد ملے گا اور اس کے نیچے قبریں ہونا اس بنا پر کہ ہمارے علماء نے قبروں کے سطح بالائی کو حق میت لکھا ہے اور مسجد کا جمیع جہات میں حقوق العباد سے منقطع ہونا لازم ہے، ہر گز مانع مسجدیت نہ ہو گا کہ اس حق سے مراد کسی کی ملک یا وہ حق مالکانہ ہے، جس کے سبب وہ اس مسجد میں تصرف سے مانع آ سکے کہ جب ایسا ہو گا تو وہ خالص لوجہ اللہ نہ ہوئی، اور مسجد کا خالص لوجہ اللہ ہونا ضرور ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ جلد16،صفحہ303تا 305،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن قبرستان میں مدرسہ اور کتب خانہ بنانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”وقف کی تبدیل جائز نہیں، جو چیز جس مقصد کے لیے وقف ہے، اسے بدل کر دوسرے مقصد کے لیے کر دینا روا نہیں، جس طرح مسجد یا مدرسہ کو قبرستان نہیں کر سکتے، یونہی قبرستان کو مسجد یا مدرسہ یا کتب خانہ کر دیناحلال نہیں۔ سراج وہاج پھر فتاوی ہندیہ میں ہے:”لا یجوز تغیر الوقف عن ھیأتہ فلا یجعل بستاناً و لا الخان حماماً و لا الرباط دکاناً إلا إذا جعل الواقف إلی الناظر ما یری فیہ مصلحۃ الوقف اھ“۔وقف کو اس کی ہیئت سے تبدیل کرنا ،جائز نہیں،لہذا گھر کا باغ بنانا اور سرائے کا حمام بنانا اور رباط کا دکان بنانا، جائز نہیں، ہاں جب واقف نے نگہبان پر معاملہ چھوڑ دیا ہو کہ وہ ہر وہ کام کر سکتا ہے جس میں وقف کی مصلحت ہو، تو جائز ہے، اھ۔قلت: جب  ہیئت کی تبدیلی جائز نہیں، تو اصل مقصود کی تغییر کیونکر جائز ہو گی۔“(فتاوی رضویہ، جلد9 ،صفحہ 457،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:”مسلمانوں کو تغییر وقف کا کوئی اختیار نہیں، تصرف آدمی اپنی ملک میں کر سکتا ہے، وقف مالک حقیقی جل و علا کی ملک خاص ہے، اس کے بے اذن دوسرے کو اس میں کسی تصرف کا اختیار نہیں۔“

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم