Wafat Ke Baad Tajheez O Takfeen Mein Takhir Karne Ka Hukum

وفات کے بعد تجہیز وتکفین میں تاخیرکرنے کا حکم !

مجیب:مولانانوید چشتی صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin:4877

تاریخ اجراء:13صفرالمظفر1438ھ/14نومبر2016ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    مفتی صاحب میرا سوال یہ ہے کہ یورپ میں کسی مسلمان کی وفات  کے بعدتدفین میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے مثلا غسل ِمیت میں بھی وقت صرف ہوتا ہے ، پہلے نام لکھوانا پڑتا ہے اور اس نام لکھوانے میں بھی وقت لگتا ہے پھر بارہا غسل کی باری آنے میں بھی دو دن تین دن لگ سکتے ہیں ۔ پھر یہ کہ تدفین کبھی چار دن کے بعد اور کبھی  ہفتے کے بعد ہو گی، کیونکہ تدفین کرنے والے لوگوں کا اپنا ایک جدول اور شیڈول ہوتا ہے، تو یہ لاش پھر کولڈ اسٹوریج میں ڈال دیتے ہیں ۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کےلئے حکم ِ شرعی کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جب کسی شخص کے فوت ہو جانے کا یقین ہو جائے تو شرعاً حکم ہے کہ اس کی تجہیز، تکفین و تدفین میں جلدی کی جائے، بلا ضرورت تاخیر کرناسخت منع ہے، اس میں موت کا یقین ہونے، قبر کی تیاری اور غسل و کفن وغیرہ کے ضروری انتظامات میں جو دیر لگتی ہے اس کی شرعاً اجازت ہے ،اس کے علاوہ مزید تاخیر منع ہے ۔جلد تدفین کی اہمیت کےلئے درج ذیل احکام ِ شرع پر غور کریں کہ شریعت کو میت کی تدفین میں جلدی کس قدر مطلو ب ہے۔

    پہلی بات یہ کہ کئی احادیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ ارشاد موجود ہے کہ مردے کو دفن کرنے میں جلدی کرو، اس کی تدفین میں تاخیر نہ کرو۔

    دوسری بات یہکہ فقہائےکرام تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ جمعہ کی نماز سے پہلے اگر جنازہ پڑھا جاسکتا ہو تو جمعہ کی نماز کے بعدتک صرف اس لیے تاخیر کرنا کہ جمعہ کے بعد زیادہ لوگ نماز جنازہ میں شامل ہو جائیں گے یہ مکروہ ہے۔

    تیسری بات یہ کہ طلوع و غروب اور زوال کے قریب کے تین  مکروہ اوقات جن میں نماز پڑھنا ناجائز و گناہ ہے ، ان اوقات میں بھی تدفین میں جلدی  کرنےکے حکم  کے پیش ِ نظر یہ حکم ہے کہ اگرجنازہ  مکروہ وقت میں جنازہ گاہ پہنچے  تو اسی وقت نماز جنازہ ادا کر دی جائے، شریعت کو جب جنازہ میں اس قدر تعجیل مطلوب ہے کہ مکروہ وقت میں بھی مذکورہ صورت میں جائز قرار دے دیا تو پھرکئی کئی  دنوں کی تاخیر کیسے روا ہو سکتی ہے۔

    سوال میں بیان کردہ صورت میں مردے کوکئی دن تک دفن نہ کرنے  میں مزید کئی شرعی قباحتیں موجود ہیں، ایک تو یہ کہ مردے کو کئی دن رکھنے کے لیے سرد خانے میں رکھنا ہو گا جو کہ نا جائز و گناہ ہے کیونکہ سرد خانے میں رکھنے کی وجہ سے مردہ برف کے ساتھ برف بن جائے گا اور اس طرح مردے کو سرد خانے میں رکھنے میں اس کو اذیت دینا ہے، جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ جن چیزوں سے زندہ شخص کو اذیت ہوتی ہے ان چیزوں سے مردہ کو بھی اذیت ہوتی ہے، اوریہ بات بداہۃً ثابت ہے کہ زندہ شخص کو برف میں رکھنے سے اذیت ہوتی ہے تو مردے کو بھی اذیت ہو گی جو کہ نا جائز و گناہ ہے۔

    اور ہوسکتا ہے کہ بعض صورتوں میں  کچھ دن تدفین میں تاخیر کی وجہ سے  میت کا بدن خراب ہونے کا اندیشہ بھی ہو،جیسا کہ بعض بیماریوں یا زخموں کی وجہ سے جسم فوراً خراب ہونا ، بو پیدا ہو جانا اور اس کی رنگت کا تبدیل ہو جانا وغیرہ وغیرہ۔ اور  فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر میت کا بدن خراب ہونے کا اندیشہ ہو تو تدفین میں تاخیر کرنا  نا جائز و گناہ ہے۔

    واضح ہو ا کہ مردے کی تجہیز و تکفین میں بلا ضرورت شرعی تاخیر کرنا سخت ممنوع ہے لہٰذا جن ممالک میں لوگ جنازے میں کسی بھی شرعی رخصت کے بغیر کئی کئی دن تک تاخیر کرتے ہیں ان پر لازم ہے کہ شریعت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے میت کو جلد دفن کرنے کا کوئی انتظام کریں،اور خلاف شرع جو کام لوگوں میں رائج ہو چکا ہے اس کو شریعت کے مطابق  کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ایسی جگہوں پر جلد تدفین کی سنت کو زندہ کرنے والوں کو ان شاء اللہ تعالیٰ سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم