کپڑے پر نجاست لگنے کا وقت معلوم نہ ہو تو نمازوں کا حکم؟

مجیب:مولانا شاکر مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-6942

تاریخ اجراء:07 رجب المرجب1441 ھ/07مارچ2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض اوقات کپڑے پرنجاست لگ جاتی ہے اورمعلوم نہیں ہوتا،پھرخوددیکھنے یاکسی کے بتانے سے معلوم ہوا،توعلم ہونے  سے پہلے جونمازیں اداکی ہیں،ان کے بارے میں کیاحکم ہے، یعنی کیاانہیں دوبارہ پڑھاجائے گایانہیں؟      

                                                                  سائل:محمدشاہ زیب عطاری(فیصل آباد)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

       کپڑے پرنجاست لگی پائی مگرنجاست لگنے کاوقت معلوم نہیں، تومعلوم ہونے سے پہلے اس کپڑے میں جتنی نمازیں پڑھیں سب اداہوگئیں،کسی نمازکالوٹاناضروری نہیں،البتہ منی کاحکم دیگرنجاستوں سے جداہے کہ اگرمنی کپڑوں پرپائی اورلگنے کاوقت معلوم نہیں،تووقتِ احتلام یعنی آخری مرتبہ سونے کے بعدجتنی نمازیں ان کپڑوں میں پڑھیں، ان سب کااعادہ کیاجائے۔

    کپڑے پرنجاست لگنے کاوقت معلوم نہ ہونے کے بارے میں مبسوط میں ہے:’’من رأی فی ثوبہ نجاسۃ لایدری متی اصابتہ لایلزمہ اعادۃشیء من الصلوات ‘‘ترجمہ:جس نے اپنے کپڑے پرنجاست کودیکھااوریہ نہیں جانتاکہ کب سے لگی ہے، توکسی نمازکااعادہ لازم نہیں۔

 (المبسوط،ج01،ص59،مطبوعہ دارالمعرفہ،بیروت)

      بدائع الصنائع میں ہے:’’ولواطلع علی نجاسۃ فی ثوبہ اکثر من قدرالدرھم ولم یتیقن وقت اصابتہا لایعیدشیئا من  الصلاۃ‘‘ترجمہ:اوراگرکوئی اپنے کپڑے پرایک درہم سے زائدلگی نجاست پر

مطلع ہوا اور اسے نجاست لگنے کاوقت معلوم نہ ہو،تووہ کسی نمازکااعادہ نہیں کرے گا۔

         (بدائع الصنائع،ج01،ص78،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

      نجاست منویہ کاحکم وقتِ احتلام سے ہونے کے بارے میں بحرالرائق میں ہے:’’ذکر ابن رستم فی نوادرہ عن أبی حنیفۃ من وجد فی ثوبہ  منیا  أعاد  من  آخر  ما  احتلم   وإن کان  دما  لا یعید لأن  دم  غیرہ  قد  یصیبہ  والظاھر  أن   الإصابۃ لم تتقدم زمان وجودہ فأما منی غیرہ لا یصیب ثوبہ فالظاھر أنہ منیہ فیعتبر وجودہ من وقت وجود سبب خروجہ‘‘ترجمہ: ابن رستم نے اپنی نوادر میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے روایت کیا ہے کہ جس نے اپنے کپڑے پر منی پائی،تو آخری احتلام سے اب تک کی  تمام نمازیں لوٹائی جائیں گی اور اگر خون پایا،تو اعادہ نہیں ہے، اس لیے کہ خون کسی اور کا بھی اس کے کپڑے کو لگ سکتا ہے اور ظاہر یہی ہے کہ اس خون کا لگنا اس کے پائے جانے کے زمانے سے مقدم نہیں ہوگا،باقی منی کسی غیر کی اس کے کپڑے کو نہیں پہنچ سکتی ،اس لیے ظاہر یہی ہے کہ یہ اس کی منی ہے اور اس کا اعتبار اس کے خروج کے وجود سے کیا جائے گا۔

(البحر الرائق ،کتاب الطھارۃ،ج1،ص132،مطبوعہ دار الکتاب الإسلامی)

      جوہرہ نیرہ میں ہے:’’ولو وجد فی ثوبہ منیا أعاد الصلاۃ من آخر نومۃ نامہا فیہ‘‘ترجمہ: اگر کپڑے پر منی پائی، توان کپڑوں کے ساتھ جو آخری مرتبہ سویا تھا ،اس وقت سے لے کر اب تک کی تمام نمازیں لوٹائی جائیں گی۔  

(الجوھرۃالنیرۃ،کتاب الطھارۃ،الأغسال المسنونۃ،ج1،ص 19،مطبوعہ المطبعۃ الخیریۃ)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم