فجر کے فرض پڑھتے ہوئے بھولے سے تیسرئ رکعت ملا لی تو کیا حکم ہے؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

فتوی نمبر: Gul-1596

تاریخ اجراء:17جمادی الاخریٰ1440ھ/23فروری2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ اگر کوئی شخص  فجر کے فرض پڑھتے ہوئے بھول کر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے اور سجدہ بھی کرلے، پھر اسے یاد آئے کہ میں نے نمازِ فجر کی تین رکعتیں ادا کرلی ہیں، تو اب اس کے لیے کیا حکم ہے کہ وہ  نماز توڑ دے، کیونکہ فجر کے فرض پڑھنے کے بعد نوافل پڑھنا مکروہ ہیں یاپھر ایک اور رکعت ملا کر چار پوری کرلے،اگر ایک رکعت اور ملاتا ہے، تو یہ چار رکعت ہو جائیں گی اور فجر کے بعد تو نفل نہیں پڑھے جاتے ،اس بارے میں کیا کیا جائے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اگر کوئی انسان قعدہ اخیرہ کرنے کے بعد نمازِ فجر میں تیسری کےلیے، مغرب میں چوتھی کےلیے یا ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں پانچویں کے لیے کھڑا ہو جائے، تو اسے حکم ہے کہ وہ اس اضافی رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے یاد آنے کی صورت میں واپس لوٹ کر سجدہ سہو کرے اور اپنی نماز مکمل کرے۔ اگر اس اضافی رکعت کا سجدہ کرلیا، تو ایک رکعت اور ملا لے، آخر میں سجدہ سہو کرلے۔ اس طرح آخری دو رکعتیں نفل ہو جائیں گی۔رہی یہ بات کہ” فجر و عصر کے بعد نفل پڑھنا مکروہ ہے“ تو یہ حکم اس وقت ہے، جب کوئی شخص جان بوجھ کر مکروہ اوقات میں نوافل ادا کرے، اگر بلا ارادہ بھولے سے شروع کردئیے، تواب مکروہ نہیں ہے۔

    اگر نمازِعصر میں قعدہ اخیرہ کرنے کے بعد پانچویں کے لیے کھڑے ہوگئے، یا فجر میں تیسری کےلیے کھڑے ہوگئے،یا مغرب میں چوتھی کے لیے کھڑے ہوگئے اور اس زائد رکعت کا سجدہ بھی کرلیا، تو اب عصر میں چھٹی،فجر میں چوتھی اورمغرب میں پانچویں رکعت ملا لے۔اس کابیان کرتےہوئےدرمختارمیں ہے۔”وان قعدفی الرابعۃ ۔۔وان سجد للخامسۃ۔۔ضم الیھا سادسۃ لو فی العصرو خامسۃ فی المغرب ورابعۃ فی الفجر،بہ یفتی لتصیر الرکعتان لہ نفلاوسجد للسھو “ یعنی اگر چوتھی رکعت میں قعدہ کیاپھر پانچویں کے لیے سجدہ کرلیا تو اب چھٹی رکعت بھی ادا کرے گا ،اگرچہ نماز عصر ہو۔ مغرب میں پانچویں اور فجر میں چوتھی رکعت ادا کرے گا۔ یہ مفتی بہ قول ہے، اس طرح یہ آخری دو رکعتیں  نفل ہو جائیں گی ۔۔۔ اور آخر میں سجدہ سہو کرے گا۔

                            (ملتقط از درمختار متن ردالمحتار، جلد2، صفحہ667،مطبوعہ  کوئٹہ)

    اس عبارت کے تحت ردالمحتار میں ہے: ”اشار الی انہ لا فرق فی مشروعیۃ الضم بین الاوقات المکروھۃ وغیرھا لما مر ان التنفل فیھا انما یکرہ لو عن قصد والا فلا وھو الصحیح زیلعی وعلیہ الفتوی مجتبی والی انہ کما لا یکرہ فی العصر لا یکرہ فی الفجر“ یعنی مصنف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس صورت میں وقت چاہے مکروہ ہو یا نہ ہو، رکعت ملانے میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ بیان ہو چکا ہے کہ مکروہ اوقات میں نوافل تب مکروہ ہیں جب وہ جان بوجھ کر پڑھے جائیں، ورنہ مکروہ نہیں ہیں، یہی درست اور مفتیٰ بہ ہے۔ نیز مصنف نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہےکہ  اس صورت میں جس طرح  عصر کے فرض  میں رکعت ملانا مکروہ نہیں ہے، اسی طرح فجر میں بھی مکروہ نہیں ہے۔             

                                                                                                                 (ردالمحتار مع الدر المختار، جلد2، صفحہ 667، کوئٹہ)

    قدوری مع جوہرہ میں ہے: ”(ویکرہ ان یتنفل بعد صلاۃ الفجر حتی تطلع الشمس وبعد صلاۃ العصر حتی تغرب الشمس )یعنی قصدا اما لو قام فی العصر بعد الاربع ساھیا او فی الفجر لا یکرہ ویتم لانہ من غیر قصد“ یعنی نماز ِفجر کے بعدسے سورج طلوع ہونے تک ، اسی طرح نمازعصر ادا کرنے سے لے کر سورج غروب ہونے تک  جان بوجھ کر نفل پڑھنا مکروہ ہے۔ اگر عصر کی چوتھی ، یا فجر کی دوسری رکعت کے بعد بھولے سے کھڑا ہو، تو پھر مکروہ نہیں ہے،بلکہ ان کو پورا کیا جائے گا، کیونکہ  یہ نفل قصدا نہیں پڑھے گئے۔

                (الجوھرۃ النیرۃ، جلد1، صفحہ158، لاھور)

    بہار شریعت میں ہے: ”اگر بقدر تشہد قعدہ اخیرہ کر چکا تھا  اور کھڑا ہوگیا، تو جب تک اس رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو، لوٹ آئے اور سجدہ سہو کرکے سلام پھیر دے اور سجدہ کرلیاتو ایک رکعت اور ملائے کہ یہ دو نفل ہو جائیں اور سجدہ سہو کرکے سلام پھیرے۔“

(ملتقط از بھار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ712، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    واضح رہے کہ اگر قعدہ اخیرہ کیے بغیر اضافی رکعت کے لیے کھڑے ہوگئے، تو اب یہ حکم ہے کہ سجدہ کرنے سے پہلے یاد آنے کی صورت میں واپس لوٹ آئے، قعدہ اخیرہ ادا کرے، پھر سجدہ سہو کرکے سلام پھیر دے ۔ اگر اضافی رکعت کا سجدہ کرلیا، تو اب فرض باطل ہو کر وہ نماز نفل ہوگئی، لہذا مغرب کے علاوہ دیگر نمازوں میں ایک رکعت اور ملا لے،یہ سب نفل ہوں گے، فرض اس صورت میں ذمہ پر باقی ہوں گے اور فرض کی ادائیگی کرنا ہوگی۔

    منیۃ المصلی میں ہے: ”رجل صلی الظھر خمسا ولم یقعد علی راس الرابعۃ بطلت فرضیتہ وتحولت صلاتہ نفلاویضم سادسۃ“ یعنی ایک شخص نے ظہر کی پانچویں رکعت ادا کی، لیکن قعدہ اخیرہ نہ کیا تھا، تو اس کے فرض باطل ہو کر نفل ہو جائیں گے، پھر وہ چھٹی رکعت بھی ملالے۔

 (منیۃ المصلی، صفحہ122،مطبوعہ  لاھور)

    اس عبارت کے تحت غنیۃ المستملی میں ہے: ”وعلی ھذا لو لم یقعد فی ثالثۃ المغرب وسجد للرابعۃ او علی ثانیۃ الفجر ونحوہ وسجد للثالثہ“ یعنی یہی حکم اس وقت بھی ہے کہ جب نمازی  مغرب میں قعدہ اخیرہ نہ کرے اور چوتھی کا سجدہ کرلے، یا فجر میں قعدہ اخیرہ نہ کرے اور تیسری کا سجدہ کرلے۔

 (غنیۃ المستملی، صفحہ253،مطبوعہ کوئٹہ)

    دررالحکام میں ہے: ”وفی الثلاثی الصائر اربعا لا یحتاج الی الضم اذ الرکعات الثلاث بضم الرابعۃ  الیھا تحولت الی النفل فحصلت الصلاۃ التامۃ“ یعنی  تین رکعت والی نماز میں(قعدہ اخیرہ چھوڑ کر کھڑے ہونے کی صورت میں ۔مترجم) جب چوتھی رکعت کا سجدہ کرلیا، تو اب  مزید  رکعت  ملانے  کی

    حاجت نہ رہی، کیونکہ چوتھی رکعت ملانے سے وہ نماز نفل ہوگئی۔ یہ نماز مکمل ہے۔

(درالحکام شرح غرر الاحکام، جلد1، صفحہ152،مطبوعہ کراچی)

    بہار شریعت میں ہے: ”چار رکعت والے فرض  میں چوتھی رکعت کے بعد قعدہ نہ کیا، تو جب تک پانچویں کا سجدہ  نہ کیا ہو، بیٹھ جائےاور پانچویں  کا سجدہ کر لیا، یا فجر میں دوسری  پر نہیں بیٹھا اور تیسری کا سجدہ کر لیا، یا مغرب میں تیسری پر نہ بیٹھا اور چوتھی کا سجدہ کر لیا، تو ان سب صورتوں میں فرض باطل ہو گئے۔مغرب کے سوا  اور نمازوں میں  ایک رکعت اور ملا لے۔“         

(بہار شریعت، جلد1، حصہ3، صفحہ515،516، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم