مسبوق باقی نماز کیسے پڑھے؟ نیز نماز کے بعد جائے نماز کا کنارہ موڑ دینا درست ہے؟

مجیب:مفتی فضیل صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Kan-14693

تاریخ اجراء:23جمادی الاولیٰ19/1441جنوری2020

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ

    (1)  اگر کسی نمازی کوچار ر کعت والی نماز میں ایک رکعت ملی اور بقیہ  تین رکعتیں نکل گئیں ،تو وہ امام کےسلام پھیرنے کے بعد اپنی بقیہ نماز کس طرح ادا کرے؟

    (2) بعض لوگ نماز پڑھنے کے بعد  جائے نماز کا آخری کنارہ  موڑ دیتے ہیں  ،کیا اس طرح کرنا درست ہے ؟

سائل:محمد شعیب(گلستان جوہر، کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں وہ شخص (یعنی چار رکعتوں میں سے جس کی تین رکعتیں چھوٹ گئیں ) امام کےسلام کےبعد کھڑا ہوکر ثنا،تعوذ وتسمیہ پڑھےاور فاتحہ کےبعد سورت بھی ملائے  ،پھر رکوع وسجود  کرے اور پھر قعدہ کرے اور اس میں تشہد پڑھ کر کھڑا ہوجائے اور قیام میں سورۂ فاتحہ پڑھے اور اس کے ساتھ سورت بھی ملائے ،پھر  رکوع وسجود کےبعد قعدہ نہ کرے ،بلکہ کھڑا ہوجائے،اس رکعت میں سورۂ  فاتحہ پڑھےاوررکوع وسجود اور تشہد وغیرہ پڑھ کر  سلام پھیر لے۔

    اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام کے سلام کےبعد جب یہ کھڑا ہوا، توقراءت کے اعتبار سے یہ اس کی پہلی رکعت  تھی، لہذ ااس میں   پہلی رکعت کی طرح  ثنا  ،تعوذوتسمیۃ پڑھے اور فاتحہ کے بعد سورت بھی ملائے گا اورایک رکعت  امام کے ساتھ پڑھ چکا تھا  ،لہذاتشہد کے اعتبار سے یہ اس کی  دوسری رکعت تھی  اس لیے قعدہ میں بیٹھ کر تشہد پڑھنے کا حکم ہے،اس کےبعد کھڑا ہوا،تو قراءت کےاعتبار سے اس کی دوسری رکعت  ہوئی، لہذا اس میں دوسری رکعت کی طرح فاتحہ وسورت ملانے کا حکم ہے  اور تشہد کے اعتبار سے یہ تیسری رکعت تھی اس لیے  قعدہ میں نہیں بیٹھے گااورآخری رکعت میں قیام  میں کھڑا ہوا،توقراءت کےاعتبار سے  یہ اس کی  تیسری رکعت تھی، لہذا اس میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھ کر رکوع میں چلا جائے  گا ۔

    البتہ اگر مسبوق(یعنی جس کی چار رکعت میں سے تین چھوٹ گئیں )  امام کے بعد والی رکعت   کا قعدہ نہ کرے، بلکہ سلام کے بعد دورکعت پڑھنے کے بعد قعدہ کرے  تو یہ بھی استحساناً جائز ہے  اس کی نماز ہوجائےگی کہ من وجہ یہ  پہلی رکعت ہےاور پہلی رکعت میں قعدہ   نہیں ہوتا ،لیکن بہتر طریقہ وہی ہےجو اوپر بیان ہوا یعنی  سلام کے بعد پہلی رکعت مکمل کرکے قعدہ اولیٰ کرے۔

    مسبوق کی نماز کے بارےمیں درمختار ہے :’’ویقضی  اول صلاتہ  فی حق  قراءۃ و آخرھا فی حق  تشھد  فمدرک رکعۃ  من غیر  فجر یاتی  برکعتین بفاتحۃ  وسورۃ  وتشھد بینھا ،وبرابعۃ الرباعی  بفاتحۃ  فقط ولایقعد قبلھا‘‘مسبوق قراءت کے حق میں پہلی رکعت پڑھےگااور تشہد کے حق میں دوسری رکعت پڑھے گا ،پس فجر کے علاوہ  کی نمازوں میں ایک رکعت کو پانے والا دورکعتوں کو فاتحہ اور سورت کے ساتھ پڑھے اوران کے درمیان تشہد بھی پڑھے  اورچار رکعت والی نماز کی چوتھی رکعت  میں صرف فاتحہ پڑھے او راس سے پہلے قعدہ بھی نہ کرے۔

    ردالمحتار میں ہے :’’(وتشھدبینھا) قال فی شرح المنیۃ:ولو لم یقعد  جاز استحسانا لا قیاسا ولم یلزمہ سجودالسھو لکون  الرکعۃ  اولی  من وجہ ‘‘شرح منیہ میں ہے کہ اگر وہ ان دورکعتوں کے درمیان نہ  بیٹھے،  تو بھی استحساناً،  جائز ہے،   نہ کہ قیاساً  اور اس پر سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا ، کیونکہ ایک اعتبار سے یہ اس کی پہلی رکعت ہے ۔

     (الدرالمختار مع ردالمحتار،جلد2،صفحہ 418،مطبوعہ کوئٹہ)

    امام اہلسنت امام احمدرضا خان  علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا کہ’’جس  امام کےساتھ  چار رکعت  کی نماز  میں ایک  رکعت ملی ،وہ باقی  نماز کیونکر(کیسے)  اد اکرے؟‘‘ تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے جوابا ً ارشاد فرمایا:’’امام کےسلام  کے بعد اٹھ  کر ایک رکعت  فاتحہ  وسورت  کے ساتھ پڑھے  اوراس   پر التحیات  کےلیے بیٹھے ،پھر  کھڑا ہو کر ایک  رکعت  فاتحہ  وسورت  کے ساتھ پڑھے اوراس  پر نہ بیٹھے  ،پھر ایک رکعت  صرف فاتحہ  کے ساتھ  پڑھے  اورقعدہ اخیرہ  کر کےسلام پھیر دے۔‘‘

             (فتاوی رضویہ ،جلد7،صفحہ 242،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    ایک دوسرے مقام پر امام اہلسنت  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مغرب کی ایک رکعت   پانے والے مسبوق کےبارے میں فرماتےہیں  کہ’’یہاں تک  کہ غنیہ  شرح منیہ میں  فرمایا: اگر ایک رکعت   پڑھ کر قعدہ نہ کیا،  توقیاس  یہ ہے کہ  نما ز ناجائز ہو یعنی ترک واجب  کےسبب ناقص وواجب الاعادہ ، البتہ استحسانا حکم جواز وعدمِ وجوب ِ اعادہ دیاگیا کہ یہ رکعت  من وجہ  پہلی بھی ہے۔‘‘

 (فتاوی رضویہ ،جلد7،صفحہ 234،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    (2) نماز پڑھنےکے بعد مصلے  کا آخری کنارہ موڑ دینےمیں حرج نہیں  ،بلکہ بعض احادیث    سے اس      کی اصل نکل سکتی  ہے، البتہ بہتر یہ ہےکہ  نماز پڑھنے کے بعدصرف   مصلے کا کنارہ موڑنے کی بجائے  پورا مصلیٰ لپیٹ کر رکھ دیا جائے۔

    امام اہلسنت امام احمد رضاخان  علیہ رحمۃ الرحمن سے   سوال ہواکہ ’’اکثر دیہات  میں نماز  پڑھ کر جب اٹھتے ہیں  کو نا  مصلی  کا الٹ دیتے ہیں  اس کا شرعاً  ثبوت ہے یا نہیں ؟‘‘ توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواباًارشاد فرمایا:’’ابن عساکر   نے تاریخ  میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت  کی ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  فرماتے ہیں :الشاطین یستمتعون بثیابکم فاذا نزع احدکم ثوبہ فلیطوہ حتی ترجع الیھا انفاسھا فان الشیطان لا یلبس ثوبا مطویا‘‘شیطان تمہارے کپڑےاپنے استعمال میں  لاتے ہیں، تو کپڑا اتار کر تہہ کر دیا کرو کہ اس کا دم راست ہو جائے کہ شیطان تہہ کیے کپڑے کو نہیں پہنتا ‘‘۔معجم اوسط  طبرانی  کے لفظ یہ ہیں:’’اطوواثیابکم  ترجع  الیھا  ارواحھا فان الشیطان اذا وجدا الثوب مطویا لم یلبسہ وان وجدہ منشورا لبسہ‘‘کپڑے لپیٹ  دیا کرو کہ ان کی جان میں جان آجائے  اس لیےکہ شیطان  جس کپڑے  کو لپٹا ہوا دیکھتا ہے اسے نہیں پہنتا  اور جسے پھیلا ہوا پاتا ہے اسے پہنتا ہے۔ابن ابی الدنیا  نے قیس ابن ابی حازم  سے روایت کی:قال  مامن فراش یکون مفروشا لاینام علیہ احدالانام علیہ  الشیطان ‘‘فرمایا جہاں  کوئی بچھونا  بچھا ہو جس  پر کوئی سوتا نہ ہو اس پر شیطان سوتا ہے ۔

ان احادیث  سے اس کی اصل نکل سکتی ہے  اور پورا لپیٹ دینا بہتر ہے۔‘‘

(فتاویٰ رضویہ ،جلد6،صفحہ 206،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم