ملازم کو نماز پڑھنے کے لیے کتنے ٹائم کی چھٹی دینا مالک پر لازم ہے ؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1715

تاریخ اجراء:28صفرالمظفر 1441ھ/28اکتوبر 2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کپڑے کی دکان پر وقت کا اجیر ہے ۔ مالک پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملازم کوفرض  نماز کے لیے چھٹی دے ، آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ کتنے ٹائم کے لیے چھٹی دینا مالک پر لازم ہے ؟ یعنی نماز میں اگر اوسطاً 15 ،20 منٹ لگتے ہوں اور وہ ملازم دعائے ثانی ہوجانے کے بھی 15 سے 20 منٹ بعد  آتا ہو اور 40 ، 50 پچاس منٹ لگاتا ہو ، تو کیا ایسا کرنا اُس کے لیے جائز ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں ایک نماز کے وقت کے لیے اوسطاً جتنا وقت لگتا ہے ، اتنے وقت کے لیے ہی نماز کے لیے وہ ملازم جاسکتا ہے ۔ اجارہ وقت میں نماز کے لیے 40 ، 50 منٹ لگانا تو در کنار ، سنتِ مؤکدہ کے علاوہ نوافل پڑھنا بھی اس کے لیے مالک کی اجازت کے بغیرجائز نہیں ہے ۔ اگر نوافل پڑھنے یا کسی اور کام میں وقت لگائے گا ، تو اس وقت کی اجرت کا مستحق نہیں ہوگا ، کیونکہ وہ شخص اجیرِ خاص ہے اور اجیرِ خاص کو مستاجر ( یعنی مالک ) کی اجازت کے بغیر اجارے کے وقت میں اپنا ذاتی کام کرنے اور نوافل پڑھنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔

    اجیرِ خاص کی تعریف کے متعلق در مختار میں ہے : ” والثاني وهو الأجير الخاص ويسمى أجير وحد وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وان لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة “ ترجمہ : ( اجیر کی دو قسموں میں سے ) دوسری قسم اجیرِ خاص ہے اور اس کا نام اجیرِ وحد بھی ہے ۔ اجیرِ خاص  وہ شخص ہوتا ہے کہ جو کسی ایک شخص کے لیے خاص ہوکر وقت کے ساتھ مقرر کام کرے ۔ مدت کے دوران اپنے آپ کو مستاجر ( یعنی مالک ) کے سپرد کرنے سے یہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے اگرچہ کام نہ بھی کرے ۔ جیسا کہ کسی شخص کو ایک مہینے کے لیے خدمت کے لیے اجیر رکھا ۔

( در مختار مع رد المحتار ، کتاب الاجارہ ، مبحث الاجیر الخاص ، جلد 6 ، صفحہ 69 ، مطبوعہ بیروت )

    اجیرِ خاص کے حکم کے متعلق در مختار میں ہے : ” وليس للخاص أن يعمل لغيره ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل “ ترجمہ : اجیرِ خاص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کا کام کرے ، اگر کرے گا ، تو جس قدر اُس کا کام کیا ، اس قدر اس کی اجرت سے کٹوتی کی جائے گی ۔

    اس کے تحت رد المحتار میں ہے :” بل ولا أن يصلي النافلة قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل الى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة “ ترجمہ : بلکہ وہ نوافل بھی نہیں پڑھ سکتا ۔ تتار خانیہ میں فرمایاکہ فتاویٰ فضلی میں ہے : اسی طرح جب کسی بندے کو ایک دن کے لیے اجیر رکھا ، تو اس ( اجیر ) پر لازم ہے کہ وہ مدت مکمل ہونے تک اس کا کام کرتا رہے اور فرض نمازوں کے علاوہ کسی اور چیز میں مشغول نہ ہو ۔

( در مختار مع رد المحتار ، کتاب الاجارہ ، باب ضمان الاجیر ، جلد 6 ، صفحہ 70 ، مطبوعہ بیروت )

    بہارِ شریعت میں ہے : ” اجیر خاص اُس مدت مقرر میں اپنا ذاتی کام بھی نہیں کرسکتا اور اوقاتِ نماز میں فرض اور سنت مؤکدہ پڑھ سکتا ہے ، نفل نماز پڑھنا اس کے لیے اوقات اجارہ میں جائز نہیں ۔ “

 ( بھارِ شریعت ، حصہ 14 ، جلد 3 ، صفحہ 161 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

    اجیرِ خاص کے اپنے ذاتی کام یا نفل نماز میں مشغول ہونے کے وقت کی اجرت کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:” اجیر خاص پر وقت مقررہ معہود میں تسلیم نفس لازم ہے اور اسی سے وہ اجرت کا مستحق ہوتاہے ، ہاں اگر تسلیمِ نفس میں کمی کرے ، مثلا : (کام پر ) حاضر تو آیا ، لیکن وقت مقرر خدمت مفوضہ کے سوا اور کسی اپنے ذاتی کام اگر چہ نماز نفل یادوسرے شخص کے کاموں میں صرف کیا کہ اس سے بھی تسلیم منتقض ہوگئی ، بہر حال جس قدر تسلیمِ نفس میں کمی کی ہے ، اتنی تنخواہ وضع ہوگی ۔ ملخصاً “

           ( فتاویٰ رضویہ ، جلد 19 ، صفحہ 506 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم