سمندر میں اقامت کی نیت نہیں ہو سکتی

مجیب:   محمد سجاد  عطاری مدنی  زید مجدہ

فتوی نمبر: Eml:16

تاریخ اجراء: 17ربیع الثانی 1442 ھ/03دسمبر2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسافرکےلیے یہ ضروری ہے  کہ جس  جگہ  وہ مقیم ہونے کی نیت کرے وہ جگہ  اقامت کے قابل ہو   جیسے جنگل میں  نیت نہیں  ہو سکتی اب معلوم یہ کرنا ہے کہ  نیوی کے جو افراد  سمندر کے پانی میں رہتے ہیں وہ     اقامت کی نیت کرسکتے ہیں یانہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    مسافر  کی  نیت اقامت  درست ہونے کےلیے جو شرائط ہیں ان میں سے ایک شرط  یہ ہے کہ وہ جگہ اقامت کی  صلاحیت رکھتی ہو جنگل یا دریا میں اقامت کی نیت کرنے سے مقیم نہ  ہوگاا لہذا اگر کوئی سمند رکے پانی  میں ہے اور وہ مقیم ہونے کی نیت کرتاہے تو اس سے وہ مقیم نہ  ہوگا۔

    بحرالرائق میں ہے : ’’ وقید  بالبلد  والقریۃ   ،لان   نیۃ الاقامۃ   لاتصح  فی غیرھما فلاتصح فی مفازۃ  ولاجزیرۃ  ولابحر  ولاسفینۃ   وفی  الخانیۃ  و الظھیرۃ   و الخلاصۃ    ثم  نیۃ الاقامۃ   لاتصح   الا فی موضع   الاقامۃ   ممن  یتمکن    من الاقامۃ   وموضع  الاقامۃ العمران والبیوت  المتخذۃ   من الحجر والمدر و الخشب  لا الخیام والاخبیۃ والبراۃ یعنی  شہر اور قریہ کے ساتھ مقید کیا  گیا کیونکہ  اقامت کی نیت ان دونوں جگہوں  کے علاوہ میں  درست نہیں   لہذا کشتی ،سمندر ،جزیرہ (غیر  آباد)اور جنگل میں   اقامت کی نیت درست نہ ہوگی نیز  خانیہ ، ظہیریہ اورخلاصہ میں ہے: پھر   اقامت کی نیت      فقط    ان جگہوں میں  درست ہے کہ جہاں اقامت ممکن ہو  اور اقامت کی جگہ وہ عمارت اور گھر ہیں جنہیں پتھر ،لکڑی اور گارے سے بنایا جاتاہے ناکہ  خیمے اور عارضی پناہ گاہیں ۔ (بحر الرائق ،جلد2،صفحہ 232،کوئٹہ )

        بہارشریعت میں ہے :’’وہ جگہ اقامت کی صلاحیت رکھتی ہو جنگل یا دریا  یاغیر آباد ٹاپُو میں اقامت کی نیت کی ،مقیم نہ ہوا۔‘‘ (بہارشریعت ،حصہ 4،صفحہ744، مکتبہ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم