سمع اللہ لمن حمدہ مقتدی بھی امام کے ساتھ کہے گا یا نہیں؟ |
مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:Nor:11152 |
تاریخ اجراء:17ربیع الثانی1442ھ/03دسمبر2020ء |
دارالافتاء اہلسنت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے سنا ہے کہ مقتدی بھی امام کے ساتھ رکوع سے اٹھتے ہوئےسمع اللہ لمن حمده کہے گا۔یہ بات کہاں تک درست ہے؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
ظاہر الروایہ مذہب کےمطابق امام اعظم،امام ابو یوسف اور امام محمد علیہم الرحمۃ سب کے نزدیک بغیر کسی اختلاف کےمقتدی کے لیے صرفاللهمّ ربّناو لك الحمدکہناسنت ہے، مقتدی سمع اللہ لمن حمده نہیں کہے گا۔البتہ امام کے لیےصرفسمع اللہ لمن حمده کہنااورمنفردکو دونوں کہنا سنت ہے۔ امام بخاری علیہ الرحمۃ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اذا قال الامام سمع اللہ لمن حمده فقولوا:اللهم ربنا لك الحمد فانه من وافق قوله قول الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه “ ترجمہ:جب امام سمع اللہ لمن حمدهکہے،توتم اللهم ربنا لك الحمدکہو کہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے مطابق ہوا، اس کے پچھلےگناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (الجامع الصحیح للامام البخاری،جلد1،صفحہ109، مطبوعہ کراچی) اس کی شرح عمدۃ القاری میں ہے:’’انه صلى اللہ عليه وسلم قسم التسميع والتحميد فجعل التسميع للامام والتحميد للماموم فالقسمة تنافی الشركة“یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےتسمیع وتحمیدکی تقسیم کی کہ امام کے لیے تسمیع رکھی اورمقتدی کے لیےتحمید،لہذاتقسیم شراکت کے منافی ہے(یعنی نہ امام تحمید کہے گااور نہ مقتدی تسمیع)۔ (عمدۃ القاری،جلد4،صفحہ530، مطبوعہ ملتان) فقہائے احناف کے ہاں بغیر کسی اختلاف کےمقتدی صرف تحمیدکہےگا،تسمیع نہیں،جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ان كان مقتدياً ياتی بالتحميد ولاياتی بالتسميع بلا خلاف“ یعنی ائمہ کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مقتدی صرفاللهم ربنا لك الحمدکہےگا،سمع اللہ لمن حمده نہیں کہے گا۔ (الفتاوی الھندیۃ،جلد1،صفحہ74، مطبوعہ پشاور) فتح القدیر میں ہے:”واتّفقوا ان المؤتمّ لا يذكر التسميع“ یعنی فقہائے احناف کا اس بات پراتفاق ہے کہ مقتدی سمع اللہ لمن حمده نہیں کہے گا۔ (فتح القدیر،جلد1،صفحہ460،مطبوعہ کوئٹہ) نہر الفائق میں ہے:”اما اكتفاء المؤتم فبالاجماع ای: بين الامام وصاحبيه على الظاهر“یعنی ظاہر الروایہ کے مطابق امام اعظم اور صاحبین علیہم الرحمۃ کے نزدیک بالاجماع مقتدی صرف تحمید یعنی اللهمّ ربّناو لك الحمدہی کہے گا۔ (النھر الفائق شرح کنز الدقائق،جلد1،صفحہ215،مطبوعہ کراچی) صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :’’رکوع سےاٹھنے میں امام کے لیے سمع اللہ لمن حمده کہنا اورمقتدی کے لیے اللهمّ ربّناو لك الحمدکہنااورمنفرد کو دونوں کہنا سنت ہے۔“ (بھار شریعت،جلد1،حصہ3،صفحہ527، مکتبۃ المدینہ،کراچی) |
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟