12 Mah Ka Madani Qafila Karne Walon Ke Safar Se Mutaliq Mukhtalif Ahkam

12 ماہ کا مدنی قافلہ کرنے والوں کے سفر سے متعلق مختلف احکام

مجیب:مفتی محمدھاشم خان عطاری

فتوی نمبر:133

تاریخ اجراء: 15ذوالقعدۃ الحرام1436ھ/31اگست2015ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ

   (1)بارہ ماہ میں سفر کرنے والے اسلامی بھائیوں کا سفر گھر سے شمار ہوگایا تربیت گاہ سے؟ اس دوران یعنی گھر سے تربیت گاہ تک جو نمازیں پڑھیں گے ان کی قصر ہوگی یا نہیں؟

   (2)تربیت گاہ سے جب مدنی قافلے سفر کرتے ہیں، تو عموماً 12دن کے لئے سفر ہوتا ہے اوراگر 30دن کا قافلہ ہو،توبھی ایک شہر میں 15دن قیام نہیں ہوتا،اس صورت میں نماز قصر ہوگی یامکمل؟

   (3)12ماہ والے اسلامی بھائی مدنی مرکز کے پابند ہوتے ہیں، خود سے قیام کی نیت نہیں کر سکتے ،مدنی مرکز جب چاہے سفر پر روانہ فرمادے ،اس صورت میں نمازیں پڑھنے کے حوالے سے ان کے لیے کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      سوالات کے جوابات سے پہلے کچھ باتیں ذہن نشین کر لیں :

      ایک یہ کہ مسافر وہ ہوتا ہے جواپنے گھر سے 92کلومیٹر کے یکمشت سفر کی نیت سے اپنی بستی یاشہر سے نکل جائے ۔

         دوسری یہ کہ مسافر اگر کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زائد رہنے کی نیت نہیں کرتا ،تو وہ وہاں اور راستے میں نماز قصر کرے گا ۔

    چنانچہ الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:’’ویصیر مسافرا إذا فارق بیوت المصر قاصدا مسیرۃ ثلاثۃ أیام ولیالیھا بسیر الإبل ومشی الأقدام۔۔۔ ولا یزال علی حکم السفر حتی یدخل مصرہ أو ینوی الإقامۃ خمسۃ عشر  یوما فی مصر أو قریۃ‘‘ترجمہ : آدمی اس وقت مسافر ہوگا کہ جب وہ اپنے شہر کے گھروں سے نکل جائے اور اس کا ارادہ اس جگہ جانے کا ہو کہ جو انسانی یا اونٹ کی چال کے اعتبار سے تین دن رات کی مسافت بنتی ہو اور آدمی جب تک اپنے شہر میں نہ داخل ہو جائے یا کسی شہر یا گاؤں میں پندرہ دن تک رہنے کی نیت نہ کر لے اس وقت تک مسافر ہی رہے گا۔(الاختیار لتعلیل المختار، جلد 1، صفحہ265، مطبوعہ دار الرسالۃ العالمیۃ)

      فتاویٰ عالمگیری میں ہے:’’ولا یزال علی حکم السفر حتی ینوی الاقامۃ فی بلدۃ اوقریۃ خمسۃ عشر یوماَاو اکثر‘‘ ترجمہ:آدمی اس وقت تک مسافر رہے گا جب تک کسی شہر یا گاؤں میں پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت نہ کرلے۔(فتاوی عالمگیری ،جلد1،صفحہ154،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت )

   تیسری یہ کہ ایک جگہ اگر پندرہ دن رہنے کی نیت کر لی،تو وہ جگہ اس کے لئے وطن اقامت بن جائے گی اور وطن اقامت وہاں سے سفر شرعی کرنے یاکسی اور جگہ کو وطن اقامت بنانے یا وطن اصلی لوٹ جانے سے ہی باطل ہوگا۔

      مراقی الفلاح میں ہے:’’ویبطل وطن الإقامۃ بمثلہ و یبطل أیضابإنشاء السفر بعدہ وبالعود للوطن الأصلی‘‘ ترجمہ: وطنِ اقامت (جہاں مسافر نے پندرہ دن یا زیادہ ٹھہرنے کی نیت کی ہو)دوسرے وطن اقامت سے باطل ہو جاتا ہے، یونہی اس کے بعد سفر کا آغاز کرنے سے یا اپنے وطن اصلی کی طرف لوٹنے سے بھی وطن اقامت باطل ہو جاتا ہے ۔(مراقی الفلاح، باب صلاۃ المسافر، صفحہ 381، مطبوعہ دار الخیر  الاسلامیہ)

      چوتھی یہ کہ اگر کوئی شخص نیت کرنے میں مستقل نہیں ہے، بلکہ کسی کا تابع ہے تو وہ مسافر ہی رہے گا،اگرچہ پندرہ دن سے زائد رہنے کی نیت کرلے، جب تک کہ متبوع کی نیت کا پتہ نہ چلے۔

      فتاویٰ عالمگیری میں ہے:’’وکل من کان تبعا لغیرہ یلزمہ طاعتہ یصیر مقیما بإقامتہ ومسافرا بنیتہ ‘‘ ترجمہ:ہر وہ آدمی جو کسی غیر کے تابع ہے، تو اس کو اس کی اطاعت لازم ہے، اسی کی نیت سے مقیم ہوگا اور اسی کی نیت سے مسافر۔(فتاوی عالمگیری ،جلد 1،صفحہ 155،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

      بہار شریعت میں ہے:’’مسافر اگر اپنے ارادہ میں مستقل نہ ہو، تو پندرہ دن کی نیت سے مقیم نہ ہوگا، مثلاً : عورت جس کا مہر معجل شوہر کے ذمّہ باقی نہ ہو کہ شوہر کی تابع ہے اس کی اپنی نیت بیکار ہے اور غلام غیر مکاتب کہ اپنے مالک کا تابع ہے اور لشکری جس کو بیت المال یا بادشاہ کی طرف سے خوراک ملتی ہے کہ یہ اپنے سردار کا تابع ہے اور نوکر کہ یہ اپنے آقا کا تابع ہے اور قیدی کہ یہ قید کرنے والے کا تابع ہے اور جس مالدار پر تاوان لازم آیا اور شاگرد جس کو استاذ کے یہاں سے کھانا ملتا ہے کہ یہ اپنے استاذ کا تابع ہے اور نیک بیٹا اپنے باپ کا تابع ہے ۔ان سب کی اپنی نیت بے کار ہے، بلکہ جن کے تابع ہیں ان کی نیتوں کا اعتبار ہے، ان کی نیت اقامت کی ہے، تو تابع بھی مقیم ہیں ان کی نیت اقامت کی نہیں، تو یہ بھی مسافر ہیں۔ ‘‘(بہار شریعت،جلد 1، صفحہ 745۔746،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

   اب آپ کے سوالوں کے جوابات بالترتیب یہ ہیں:

   (1)بارہ ماہ میں سفر کرنے والے اسلامی بھائی کے گھر کی آبادی سے نکلنے اور تربیت گاہ کے درمیان 92کلومیٹر کا فاصلہ ہے اوران کا یکمشت سفر کا ارادہ تھا ،تو راستے میں نماز قصر ہی پڑھیں گے اور اگر تربیت گاہ میں 15دن یا اس سے زائد رہنے کی نیت نہیں ہے، تو یہاں بھی نماز قصر ہی پڑھیں گے اور اگر یہاں پندرہ دن یا اس سے زائد رہنے کاارادہ ہے، تو مکمل نمازپڑھیں گے۔

   (2)یہ اسلامی بھائی اگر تربیت گاہ میں مسافر ہی تھے یاپھر مقیم تھے اور اب 92کلومیٹر کے فاصلہ پر جائیں گے، تو نماز قصر ہی کریں گے ۔اور اگر تربیت گاہ میں وہ مقیم تھے اور جہاں سفر کیا ہے وہ جگہ 92کلومیٹر سے کم فاصلے پر ہے اور قافلہ کا قیام 15دن سے کم ہے، تو اس صورت میں یہ نماز مکمل ہی پڑھیں گے ۔

   (3)یہ اسلامی بھائی تربیت گاہ کے تابع ہیں ان سے پوچھ لیں اگر وہ کہتے ہیں کہ یہاں 15دن رہنا ہیں، تو مقیم ہیں ورنہ مسافر ہی رہیں گے، اگرچہ وہیں پندرہ دن سے زیادہ رکتے ہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم